شہر خالی کوچہ خالی 

اب تو ریڈینشیا کی بہاریں ہیں‘جو گارڈن اور دوسرے گارڈن پھر گارڈن کی باغ و بہار تک پھیل چکی ہیں۔ اک ذرا سوشل میڈیا پر کوئی مووی لگا کر دیکھیں آپ کو رنگ برنگی رہائشی مکانات کی خریداری کے اشتہارات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ نظر آئے گا۔پلاٹوں کی پٹیاں دراز ہوتی دکھائی دیں گے۔ معلوم ہوا کہ شہر ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔پھر یہ راہ سیدھی بھی تو نہیں جاتی۔بلکہ سڑکوں کا ایک نیٹ ورک ہے جو شہرکے اندر اور باہر بھول بھلیوں کی طرح پھیلا ہوا ہے۔کمرشل پلاٹس آسان اقساط پر دستیاب ہیں اور پہلے آئیں پہلے پائیں کی بنیاد پر مل جاتے ہیں۔ پہلے ہی موٹرگاڑیاں اقساط پرمل چکی ہیں۔ جس کی وجہ سے شہریوں نے ریوڑھیوں کے مول گاڑیا ں خرید کر شہر کے چوک چوباروں کو ڈوڈ جیم بنا دیا ہے۔کوئی کار سیدھا راستہ نہیں پا سکتی۔پُر پیچ راستوں سے ہو کر فضائی طور پرقریب ترین علاقے میں زمینی راستے سے لاٹو کی طرح گھوم گھما کر پہنچتی ہے۔بس یہی زندگی ہے اس شہر میں رہنے کی یہی سبیل ہے۔

اگر جیب بھاری ہے تو کہیں کسی رہائشی کالونی میں پلاٹ خرید فرمائیں او روہاں گھر تعمیر کر لیں یا تیار بھی مل جاتے ہیں۔بلکہ ہمارے پیارے تو ان شہر کی حدود کے باہر رہائش گاہوں میں بطورِ کرایہ دار بھی شفٹ ہو چکے ہیں‘تاکہ سانس تو کھلی کھلی آئے۔کیونکہ شہر کے اندر تو اب سانس بند کرنے کے بندوبست ہو رہے ہیں۔کہیں دھواں ہے کہیں دھول دھبے ہیں اور کہیں جھاڑ جھنکار ہے۔ یو ں کہیے کہ جن کے بس میں ہے تو وہ شہر کو بھول بھلا کر باہر چل دیئے ہیں اور جو مجبور و رنجورہیں وہ وہیں اپنی جگہ پررہ رہے ہیں۔ شہر کی فصیل میں پودوں کی طرح بڑھ رہ ہیں مگر جلد ہی کملائے جاتے ہیں۔ بلکہ یہ رہائشی سکیمیں تو کاروبار بھی بن گیا ہے۔ ہاؤسنگ ایریا میں کمرشل پلاٹ بھی ہیں۔ وہ خرید کرچھوڑ دیں جلد ہی اپنی قیمت دگنا تگناکر کے آپ کو زیادہ سے زیادہ فائدہ دے جائیں گے۔ پہلے تو کسی نے مثلاً سٹیڈیم کے پیچھے پینتالیس سال پہلے ایک زمانے میں بیس مرلے کا پلاٹ پانچ ہزار کا لیا تھا۔دس سال کے بعد اس نے پانچ لاکھ میں فروخت کیا۔ کیونکہ موجودہ شہر کے بیچوں بیچ اس کھیل کے میدان سے پرے تو سب گاؤں تھا اور سبز کھیت لہلہاتے تھے۔ مگر اب تو یہ عالم ہے کہ توقع نہ امید ہر طرف شہر ہے اور شہر ہی شہر ہے۔

‘ اگرکوئی پشاور کے جغرافیہ کا سوال پوچھے تو دھڑلے سے کہہ دیں کہ پشاور کے چار اطراف پشاور ہے۔جو روز بروز سوج رہاہے۔اب وہی بیس مرلے کی قیمت پانچ ہزار کے بجائے عجب نہیں کہ ایک ارب ہو۔پہلے ایسے ہوتا تھا کہ پلاٹ لیا تو عرصہ دراز کے بعد کہیں جا کر دگنی قیمت میں فروخت ہوتاتھا۔عنقریب یہ تمام رہائشی اضافی بستیاں اپنی موجودہ قیمت سے دس گنا زیادہ منافع پر فروخت ہوں گی۔بلکہ ہو رہی ہیں۔ ایک پلاٹ ہو یا گھر لے لو عین ہفتہ دس کے بعد کسی طرف سے زیادہ کی آفر آ جاتی ہے کہ مجھے دے دو اس کی قیمت زیادہ لے لو۔ اب تو سودا دست بدستی ہے ہاتھوں ہاتھ سودا طے ہو رہاہے۔جو پراپرٹی کا کام کرتے ہیں وہ ا س سے خوب واقف ہیں۔ بلکہ اب تو کاروباری لوگوں کا رجحان اس طرف زیادہ ہو گیا ہے۔بس ڈھونڈا ڈھانڈی کی محنت کرنا پڑتی ہے اور صبر کی دیگ تلے کیچڑ لگاتے ہوئے ماچس کی تیلی دکھا کردیگ کے پک جانے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

ان دوستوں پیاروں کو زمین جائیداد کی خرید و فروخت کا کام کرتے ہوئے دیکھ کر جی خوش ہوتا ہے۔ دعا دل سے نکلتی ہے کہ کوئی بہانہ ہو اور یہ پھلیں پھولیں۔اب تو کوئی یہ نہ کہے کہ میں گاؤں میں رہتا ہو ں۔ کسی کے پاس اگر ایک عدد موٹر سائیکل بھی کم از کم ہے تو وہ سمجھے کہ میں پشاور ہی میں مقیم ہوں کیوں شہر کے گیر چاپیر سب گاؤں جو نزدیک پڑتے ہیں جوق در جوق شہر میں شامل ہورہے ہیں۔وہ وقت جلد آنے والا ہے جب پشاور نمبر ایک اور پشاور نمبر دو اور اس سے آگے جاتے جاؤ تو شہر مزید پھیلا ہوا ملے گا۔ جیسے کراچی شہر ہے کراچی نمبر او رپھر نمبر او ربہت سے نمبر ہیں۔ شہر پشاور کا اندرون کمرشل توہو چکا ہے۔مگر کچھ جو کسر باقی رہتی ہے وہ جلدی ہی پانچ سال تک پوری ہو جائے گی۔ 

سب پشاوری اپنے گھروں کی بھاری سے بھاری قیمت وصول کر کے مختصر سے قطعہ زمین کو چھوڑ کر وسیع وعریض سر سبز بنگلوں میں شفٹ ہو جائیں گے۔ شہر کا شہر خالی ہو جائے گا۔شہر کے اندر، اندر شہر بازار کی طرح قصہ خوانی بازار کے قصے ہی ماضی کی یادگار رہ جائیں گے۔ سب ایریا بازار بن جائے گا۔ کہیں کوئی نہ گیا تو نہ گیا ورنہ آبادی ترقی کے سیلاب کے آگے رک نہ پائے گی اور شہر کے باہر جائے گی۔سُکھ چین کی بانسری بجائے گی۔ بال بچوں کے ساتھ جیون بِِتائے گی۔ انسان کی تو فطرت میں ہے کہ اچھے سے اچھے کھانے پینے اور اچھے سے اچھی رہائش کا رسیا ہے۔وگرنہ جو شہر پھیل کر کروڑوں کی آبادی کو سنبھالے بیٹھے ہیں یہ ابھی تک ویران بستیاں ہوتے۔