اس وقت پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ تقریباً ڈھائی کھرب (2.46 ٹریلین) روپے ہے۔ سرکلر ڈیٹ میں اب ایک اضافی عنصر بھی شامل ہو گیا ہے جس کا تعلق گیس کے شعبے سے ہے جو کہ مزید ڈیڑھ کھرب روپے کا ہے۔ مجموعی طور پر گردشی قرضہ تقریباً چار کھرب روپے بنتا ہے۔ گیس سیکٹر کا گردشی قرضہ ایل این جی کی بلند قیمتوں اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہم آہنگ نئے اور زیادہ ٹیرف کے اعلان میں تاخیر کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔کچھ چیزیں کبھی تبدیل نہیں ہوتیں‘ اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا کہ کونسی حکومت اقتدار میں آتی ہے۔ اِن تبدیل نہ ہونے والی چیزوں سرفہرست ’معاشی حالت‘ ہے۔ خاص طور پر بیرونی اکاؤنٹ اور پاور سیکٹر کو درپیش دوہرا بحران۔ پاکستان کی معیشت کو درآمدات اور برآمدات میں عدم توازن کا سامنا ہے اور ایک عرصے سے اِس عدم توازن پر قابو پانے کے لئے قرضوں پر انحصار کیا جا رہا ہے اور گردشی قرض (سرکلر ڈیٹ) کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے دوسری طرف اِس مسئلے کے حل کے لئے موثر و بامعنی حکمت عملی سامنے نہیں آئی ہے۔معیشت کو درست کرنے کے دو ہی طریقے ہیں۔
ایک تو حکومت کی آمدنی بڑھائی جائے اور دوسرا حکومتی اَخراجات کم کئے جائیں۔ واضح ہے کہ اِس سلسلے میں سخت فیصلے لینا ہوں گے‘ خاص طور پر جب بات گردشی قرض کی ہو۔ رواں ہفتے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی کے نرخ مزید بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے کیونکہ گردشی قرض بڑھ رہا ہے لیکن اگر بجلی کے نرخ مزید بڑھائے گئے تو عام گھریلو صارفین کے لئے بجلی کی قیمت ادا کرنا عملاً ممکن نہیں رہے گا۔ حکام کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) اتھارٹی کی تجاویز پر توجہ دینی چاہئے جو ادارہ جاتی حکمرانی کے بہتر ماڈلز اور درآمد شدہ فوسل پر انحصار کم کرنے کی ایک مؤثر حکمت عملی ہے اور اِس کے ذریعے گردشی قرض کے جمع ہونے کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے جیسا کہ دیگر ممالک میں کیا جاتا ہے۔ ایندھن کے وسائل سے اگر صحیح طریقے سے استفادہ کیا جائے تو یہ مقامی توانائی کو معاشی تعمیر کی طرف لے جا سکتا ہے جو اس کے کاربن فٹ پرنٹ کو کم کرنے کے ساتھ بجلی کی قیمت کو بھی کم کر سکتا ہے۔
درحقیقت زیادہ سے زیادہ ممالک قابل تجدید توانائی منصوبوں کی حمایت کے لئے نجی شعبے کے سرمائے اور مہارت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ایسی پالیسیاں یا قوانین اپنا رہے ہیں جو اِس شعبے میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور سہولت فراہم کرتے ہیں۔ نجی شعبے کو شریک سفر کرکے سرکاری اداروں کو توانائی فراہم کرنے کے لئے بزنس ٹو گورنمنٹ ماڈل کی طرف راغب کرنا ہے۔ اس لئے حوصلہ افزا ہے کہ نیپرا ادارہ جاتی‘ ریگولیٹری اور پالیسی فریم ورک پر کام کر رہی ہے جو توانائی کی فراہمی میں نجی شعبے کی مدد کرے گی۔ پہلے ہی پنجاب ’پی پی پی ایکٹ 2019ء‘ کے نفاذ کو ’اہم سنگ میل‘ کے طور پر سراہا جا رہا ہے اور صوبے میں پی پی پی اتھارٹی کے پاس کئی منصوبے ہیں جن کا مقصد پانی‘ ٹرانسپورٹ سمیت سیکٹر ڈائیورسیفکیشن کی حکمت عملی کے ذریعے معیشت کے مختلف شعبوں تک رسائی حاصل کرنا ہے جیسا کہ توانائی‘ رہائش اور سیاحت وغیرہ۔
پی پی پی کے تحت پچاس ارب روپے کے منصوبوں کے معاہدے پر عمل درآمد کا آغاز بھی ہو چکا ہے جبکہ مزید دوسو ارب روپے بھی نئے منصوبوں کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ اِس حکمت عملی کے ذریعے مارکیٹ کو لبرلائز کرنے کی بہت سے مختلف سٹیک ہولڈرز کی طرف سے طویل عرصے سے حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ہے۔ نجی شعبہ نتیجہ پر مبنی کارکردگی لاتا ہے جس کا تقریباً تمام سرکاری محکموں میں فقدان ہے۔ بالخصوص جب ہم توانائی کے شعبے کی بات کرتے ہیں تو اس عمل کو متعارف کرانے‘ مقامی اور قابل تجدید وسائل کے استعمال کا مطلب یہ ہے کہ بجلی کی قیمتوں کو کم کیا جائے‘ گردشی قرضے کو کنٹرول کیا جائے اور اس کے نتیجے میں کاربن کے اثرات میں بھی کمی آئے۔