دو نو جوا ں طا لب علم پہلی بار پشاور آئے ہیں میں ان کی ہمرا ہی میں آسا ما ئی دروازے کے با ہر کھڑا ہوں با لا حصار کا قلعہ ہمارے پیچھے اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال دائیں طرف ہے طا لب علم قصہ خوانی بازار دیکھنا چا ہتے ہیں ان کو راستوں کا کوئی پتہ نہیں ہم نے ڈھکی نعلبندی کے راستے قصہ خوا نی میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تھوڑی سی چڑ ھا ئی چڑھنے کے بعد شہر کی بڑی فصیل میں چھوٹا سا غیر معروف راستہ ہمیں ملا۔ اس راستے پر چلتے ہوئے ہم ڈھکی نعلبندی میں داخل ہوئے‘ میں نے کہا یہ گلی قصہ خوا نی کی طرف جا تی ہے طالب علموں نے پو چھا اس گلی کا کیا نا م ہے، میں نے کہا ڈھکی نعلبندی، دونوں نے میری طرف دیکھا اور نا م کا مطلب پو چھا میں نے کہا گھوڑوں کو نعل لگا نے کی جگہ، قدیم زما نے میں لو گ گھوڑوں پر سفر کر تے تھے اس مقا م نعلبند وں کے اڈے تھے جہاں گھوڑوں کے نعل لگا ئے جا تے ہیں اور وہ سفر کیلئے تازہ دم ہو تے تھے اس جگہ کا نا م ڈھکی نعلبندی پڑ گیا۔ اب نہ گھوڑے رہے نہ نعل کی ضرورت رہی‘ مو ٹروں‘ مو ٹر سائیکلوں اور بسوں کے دور میں یہ نا م پشاور کی تار یخ سے ہمیں آگا ہ کر تا ہے۔ باتوں باتوں میں قصہ خوا نی بازار آ گیا‘ طا لب علموں نے پو چھا اس کا نا م قصہ خوا نی کیوں رکھا گیا؟ سوال مشکل تھا مگر جواب آسا ن ہے میں نے کہا قدیم زما نے میں دریا ئے باڑہ اس مقا م سے گزر تا تھا۔
دریا کے کنا رے مسافروں کیلئے سرائے ہوا کر تے تھے۔جہاں مسا فر ٹھہر تے تھے اُس زما نے میں سمارٹ فون، انٹر نیٹ، فلم، ٹیلی وژن وغیرہ نہیں ہو تے تھے لو گ گپ شپ میں وقت گزار تے تھے گپ شپ کا ایک مقبول طریقہ کہا نیاں سنا نا تھا چنا نچہ کہا نیاں سنا نے والے مسا فروں کو کہانیاں سناتے تھے‘اسلئے اس جگہ کا نا م قصہ خوا نی کی جگہ پڑ گیا۔ بعد میں مختصر ہو کر قصہ خوا نی رہ گیا اب یہاں در یا کی جگہ بازار ہے،یہاں سے مغرب کی طرف رخ کریں تو خیبر بازار اور شعبہ تک جا ئینگے۔ مشرق کی طرف رخ کریں تو بازار مسگراں آئیگا۔ اس بازار کو مسگراں کیوں کہتے ہیں؟ یہاں پیتل اور دیگر دھا توں سے خوبصورت بر تن بنا ئے جاتے ہیں۔ان بر تنوں کی پوری دنیا میں شہرت ہے۔پیتل کو اردو میں مس بھی کہتے ہیں اسلئے اس کا نا م مسگراں پڑ گیا۔ یہاں جس مسجد کے مینار نظر آرہے ہیں۔ یہ مسجد قاسم علی خا ن ہے، آگے ہم ایک دورا ہے پر کھڑے تھے دائیں طرف پیپل منڈی تھی، بائیں طرف ڈھکی دالگراں تھی، طالب علموں نے ڈھکی دالگراں میں داخل ہو نے کا تقا ضا کیا، میں نے کہا پیپل منڈی میں پیپل کا قدیم درخت تھا۔
اس کا نا م پیپل منڈی پڑ گیا، ڈھکی دالگران میں مٹر، چنا، مونگ اور دیگر انا ج سے دالیں بنا ئی جا تی تھیں اس وجہ سے اس کا نا م ڈھکی دالگراں پڑ گیا۔طا لب علموں کا اگلا سوال تھا کیا ایسے نا م اور بھی ہیں؟ میں نے کہا محلہ سار باناں ہے جو اونٹ پا لنے والوں کا محلہ تھا، محلہ فیل با ناں ہے جو ہا تھی پا لنے والوں کا محلہ ہوا کر تا تھا۔اب وہ کہہ رہے ہیں کہ اور ایسے نام کتنے ہیں۔میں نے کہا سیر کرو، کھا ؤ پیو نا م میں کیا رکھا ہے؟ وہ بضد تھے کہ ایک ہی دن شہر کے سارے محلے چھان ماریں، میں نے کہا دہلی اور لا ہور کے بعد پشاور سب سے مشہور شہر ہے ایک دن میں اس کی سیر کا پورا لطف اٹھا نا ممکن نہیں۔ دیکھا جائے تو کسی بھی جگہ کا نام پڑنا بلاوجہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے ایک طویل تاریخ ہوتی ہے جس کی بناء پر وہ نام مشہور ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی اس مقام کو ایک خاص حیثیت حاصل ہو جاتی ہے پشاور سمیت جتنے بھی تاریخی شہر ہیں ان کے پرانے ناموں کو محفوظ کرنا اور ان کے پس منظر سے آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے خاص کر نئی نسل کے لئے یہ زیادہ اہم ہے۔