حقیقت کے دو رخ ہیں‘ پشاور کبھی بھی غریب نہیں رہا اور پشاور کبھی بھی اِس قدر اَمیر بھی نہیں دیکھا گیا کہ یہاں وسائل اور آسائشوں کی ریل پیل ہے۔ پختہ مکانات‘ آسمان سے باتیں کرتی عمارتیں‘ پختہ گلی کوچے‘ تمام تر روشن رہنے والی شاہراہیں‘ گھر گھر بجلی گیس فون جیسی سہولیات‘ آمدورفت کے ذرائع کہ جنہوں نے فاصلوں کو سمیٹ دیا ہے اور سہولیات کہ جن سے ہر خاص وعام مستفید ہو رہا ہے لیکن ’قناعت‘ نہیں رہی۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب اندرون شہر کی گلی کوچوں سے گزرتے ہوئے اکثر مکانات ایک دوسرے سے جڑے اور سہارے (ٹیک) لگائے نظر آتے تھے۔ دیار اور دیگر لکڑیوں کے ستون (ڈاگوں) سے ہر دوسرے گھر کو دیا گیا سہارا نظر آتا تھا کیونکہ تعمیر و مرمت کے لئے وسائل نہیں ہوتے تھے۔ یہ ایک عمومی منظرنامہ تھا جس سے اندرون شہر کے رہنے والوں کی مالی حالت ایک دوسرے سے زیادہ مختلف نہیں ہوتی تھی۔ گزر اوقات کے لئے محدود وسائل پر انحصار ہونے کے باوجود ایک دوسرے کی غم و خوشی میں اِس جذبے سے شرکت کی جاتی کہ اپنے اور پرائے کا احساس ختم ہو جاتا تھا۔ گلی کے آرپار ہمسائے ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرنے کے لئے رسی سے بندھی ہوئی باسکٹ کے ذریعے اشیاء کا تبادلہ کرتے۔ اِس باسکٹ کو ہندکو زبان میں ’چھیکا‘ کہا جاتا تھا صبروشکر اور قناعت پر مبنی اِس ماحول میں خوشی و غم کے مواقعوں پر پورے محلے کے وسائل مختص کر دیئے جاتے۔ ہر گھر سے برتن‘ چارپائیاں‘ بستر اور اُن کے مہمان خانے (بیٹھک‘ جنہیں اہل ہندکو ’بیٹخ‘ کہتے ہیں) سے اِستفادہ کیا جاتا چند دہائیوں قبل کے پشاور کی یادیں بھی ایسا لگتا ہے کہ جیسے صدیوں پرانی بات ہو!یہ وہ دور تھا جب بارشیں شدت سے زیادہ مسلسل کئی دنوں اور ہفتوں تک جاری رہتیں اور یہ اپنے ساتھ سردی کی شدید لہر لیکر آتی تھیں۔ تب گرم کپڑے بھی اِس قدر نہیں ہوتے تھے کہ الماریاں بھرے ہوئے ہیں اور گرمی سردی کے الگ الگ جوتے رکھنے کا تصور بھی عام نہیں تھا۔ گھروں میں کھانے پکانے سے لیکر روئی سے بھرے بھاری بھرکم لحاف ’صندلی‘ کو ڈھانپے رکھتے تھے۔ اِس ماحول دوست منظرنامے میں توانائی کا ضیاع نہ ہونے کے برابر ہوتا اور یہی وجہ تھی کہ موسم بھی اہل پشاور سے ناراض نہیں تھے اور ہم زمین جاندار بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پشاور کی غربت نہیں بلکہ قناعت زیربحث ہے اور اِس کا ایک پہلو ’چونگے دی روٹی‘ ہوا کرتی تھی۔ اہل پشاور کے ہاں ”چونگہ“ کسی بھی جنس کے اُس اضافی حصے کو کہا جاتا ہے جو بطور معاوضہ یا بطور صلہ کسی کو دیا جائے۔ ہوتا یہ تھا کہ پشاور میں چند ایسے تندور بھی ہوتے جہاں روٹی پکانے کا معاوضہ نہیں لیا جاتا تھا بلکہ گندم یا جوار (مکئی) کے آٹے کے جو ’پیڑے‘ کسی گھر سے پکانے کیلئے لائے جاتے تھے اُن میں سے نہایت ہی واجبی سی مقدار لے لی جاتی تھی اور اِس چٹکی (چونڈی) بھر مقدار سے بننے والی روٹی کو ”چونگے دی روٹی“ کہا جاتا جو وزن میں تو مقررہ وزن کے مطابق ہوتی لیکن اِس کی قیمت کم ہوتی اور صرف گنتی کے چند ایک تندور ہی ’چونگے دی روٹی‘ فروخت کیا کرتے تھے۔آج کئی تندوروں پر رکھی دکھائی دیتی ہے اور اِس میں صارفین اور تندور مالک کی جانب سے ڈالی گئی روٹی مستحقین کو مفت فراہم کی جاتی ہے لیکن اکثر تندوروں پر رکھی ہوئی یہ ’شکرانے کی ٹوکری‘ خالی ہی ملتی ہے جس کی ایک وجہ پیشہ ورانہ بھکاریوں کی بہتات ہے اور یہ پیشہ ور بھکاری اندرون شہر کے کئی حصوں بالخصوص بازار کلاں سے گھنٹہ گھر بازار کے درمیان تندوروں کے سامنے سر شام سے رات گئے تک بیٹھے نظر آتے تھے۔ قابل ذکر یہ بھی ہے کہ موسم سرما اور دیگر ایام میں ’پیشاوری‘ سستے داموں ایندھن پر انحصار کرتے تھے جس میں گائے کے گوبر سے بننے والے اوپلوں‘بکری کی مینگنیوں بیٹ ا استعمال کیا جاتا تھا‘ کم آمدنی رکھنے والے خاندان یکہ توت دروازے کے باہر فروخت ہونے والی مینگنیوں کی بوریاں خرید لاتے اور اِسے کھانا پکانے کے لئے چولھے میں استعمال کرنے کے بعد ’انگھیٹی میں ڈال کر ’صندلی‘ میں رکھ دیا جاتا۔ گوبر کے اُوپلوں کے مقابلے کم دھواں اور بدبو پیدا کرنے والا یہ توانائی کا متبادل انتہائی ماحول دوست تھا۔