وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے تھرکول بلاک ٹو کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں کہاہے کہ تھر میں موجود کوئلے کے ذخائر سے 300 سال تک بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جس کی قیمت 10 روپے فی یونٹ تک ہو گی،وزیراعظم شہباز شریف کاکہنا تھا کہ تھر کا کوئلہ پاکستان کے لئے گیم چینجر ثابت ہو گا‘واضح رہے کہ پاکستان میں کوئلے کے چار ہزار میگا واٹ کے بجلی پلانٹ لگے ہوئے ہیں جب کہ اس وقت لگنے والے کوئلے کے نئے پا ور پلانٹ سے آلودگی پیدا نہیں ہو گی۔اگر تھر کول کو پوری طرح فروغ دیاجائے تو اس سے پاکستان کا کثیرزر مبادلہ بچایاجا سکتاہے‘یہ بات خوش آئند ہے کہ عالمی منڈی میں کوئلے کی قیمت 67 ڈالر سے کم ہوکر 44 ڈالر پر آ گئی ہے‘موجودہ حکومت نے توانائی کی ضروریات کی درآمد پراب تک 24 ارب ڈالر خرچ کئے ہیں جب کہ تمام کوششوں کے باوجود گیس درآمد نہیں کی جا سکی ہے جس کی وجہ سے آنے والی سردیوں میں گیس کی شدید لوڈ شیڈنگ کی صورت میں ملک کو توانائی کے سنگین بحران کاسامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘ لہٰذا تھر کول جیسے مفید منصوبوں سے نہ صرف پاکستان کے دیرینہ ترقی کے مسائل حل ہو سکیں گے بلکہ درآمدی ایندھن پر خرچ ہونے والا خطیر زر مبادلہ بچا کر عوام کی فلاح و بہبود پربھی خر چ کیا جا سکے گا‘ماہرین کے مطابق تھر میں 175 ملین ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں جن سے گیس اور بجلی بنا ئے جاسکتے ہیں‘اگر حکومت قدرت کے اس انمول تحفے کو عوامی فلاح اور بہبود کیلئے بھرپور انداز میں استعمال کرے تو اس سے پاکستان کی توانائی کا مسئلہ بآسانی حل ہونے کی امید کی جاسکتی ہے‘اسی طرح ہمیں کوئلے کے ساتھ ساتھ توانائی کے قابل تجدیداور متبادل ذرائع بشمول سولر، ونڈ اور ہائیڈرل کو بھی بروئے کار لا کر عوام کے لئے صاف اور سستی بجلی پیدا کرنے کے دیرپا منصوبوں پر کام کاآغا زکرنا ہوگا۔ان منصوبوں سے عام آدمی کو جہاں توانائی کی سہولیات میسر ہوں گی وہیں ملکی معیشت بھی دن دگنی رات چوگنی ترقی کریگی۔ تھر کول منصوبے کے حوالے سے ایک اور قابل ذکر بات اس پراجیکٹ کا جدید ٹیکنالوجی سے مکمل ہوناہے جس سے ماحولیاتی آلودگی جیسے تباہ کن مسائل بھی پیدا نہیں ہوں گے۔ یاد رہے کہ ایک وقت تھا جب تھر میں زندگی گزارنے کے آثار نہیں تھے لیکن اب جب یہاں سے بجلی کی پیداوار شروع ہوئی ہے تو یہ بے آب وگیاہ علاقہ جنگل میں منگل کاسماں پیدا کررہا ہے۔ اس منصوبے کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ کوئلے کی ٹرانسپورٹ کے لئے یہاں ریلوے ٹریک بنایا جارہا ہے‘یہ حقیقت ہے کہ جب سے تھر کول کا منصوبہ شروع ہواہے‘ اس سے یہاں کے عوام کو روزگارکے وسیع مواقع دستیاب ہوئے ہیں اور اگر اس منصوبے کی توسیع کا کام جاری رہاتواس سے نہ صرف مقامی سطح پر روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوں گے بلکہ یہاں دیگر علاقوں سے آنے والوں کیلئے بھی روزگار کے نئے دروازے کھلیں گے۔ وطن عزیز کو پچھلی دو دہائیوں میں بجلی کے جس شدید ترین بحران اور لوڈ شیڈنگ کا سامنا رہا ہے‘اس کی بڑی وجہ توانائی کی بڑھتی ہوئی مانگ کے باعث ہائیڈل منصوبوں کا مطلوبہ پیداوار دینے میں ناکافی ہونا تھا‘ 2013ء میں اس وقت کی حکومت کو برسراقتدار آتے ہی بجلی کی کمی پوری کرنے کیلئے تیل و گیس کی صورت میں انتہائی مہنگے ذرائع اختیار کرنا پڑے جس سے وہ حکومت عارضی طور پر تو اس بحران پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئی لیکن آج ڈالر کو پر لگ جانے سے حکومت کو پیداواری لاگت پوری کرنے میں جن چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑرہاہے‘اس سے ایک مرتبہ پھر لوڈشیڈنگ کی پہلے جیسی کیفیت پیداہوگئی ہے‘ ارضیاتی ماہرین نے ایک بار پھر حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے کہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں کوئلے کے 175 ارب ٹن ذخائر سے، توانائی کے سنگین بحران سے نمٹنے میں مدد لی جاسکتی ہے‘ ملکی معیشت پر درآمدی ایندھن کے اثرات محدود کرنے کیلئے تھر کے کوئلے کے ذخائر کوبآسانی کام میں لایا جاسکتا ہے‘ صرف سیمنٹ اور شوگر کی صنعتوں میں متبادل ایندھن کے طور پر انکے استعمال سے پاکستان کو اس مد میں بھی 66 ارب روپے تک کی بچت ہوسکتی ہے اس صحرائی علاقے میں کوئلے کے ذخائر ان کیلئے امید کا واحد اور آخری ذریعہ ہیں جو ان کی ترقی و خوشحالی کا باعث بن سکتے ہیں۔ ارضیاتی ماہرین تھر کے اس کوئلے کو ملکی ضروریات پوری کرنے کیلئے کافی قرار دے رہے ہیں اگر حکومت نے اس عظیم منصوبے پر کام جاری رکھا تو اس سے نہ صرف انتہائی سستی بجلی حاصل ہوگی بلکہ صنعتی شعبے کی دیگر ضروریات پوری کرنے میں مدد لی جاسکے گی۔