کچھ عرصے سے سعودی عرب کی امریکہ سے دوری اور روس اور چین سے قربت بڑھ رہی ہے تو کیا سعودی عرب نے مغرب کے مقابلے میں چین اور روس کا حلیف بننے کا فیصلہ کرلیا پے‘روس یوکرین لڑائی کی وجہ سے یورپ میں توانائی بحران کے بعد امریکہ کی خواہش رہی ہے کہ سعودی عرب اور دیگر تیل پیدا کرنیوالے ممالک تیل کی پیداوار بڑھادیں مگر سعودی عرب اب تک ایسا کرنے سے انکار کرتا آیا ہے؛امریکہ سعودی عرب کے اس فیصلے سے خوش نہیں مگر وہ سعودی عرب کو ناراض کرنا اور یوں اسے روس اور چین کی طرف دھکیلنے کا متحمل بھی نہیں ہوسکتا‘سعودی قیادت کا خیال ہے کہ تیل کی پیداوار بڑھائی گئی تو تیل کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں کم ہوجائیں گی چنانچہ تیل کی قیمتیں قابو میں رکھنے اور اپنا منافع جاری رکھنے کیلئے اس نے امریکہ کی خواہش پر تیل کی پیداوار بڑھانے سے انکار کردیا‘ اعداد وشمار کے مطابق امریکہ دنیا کا نمبر ایک تیل پیدا کرنے والا ملک ہے اور اس کا سب سے بڑا صارف بھی ہے‘ یاد رہے صدر بائیڈن کی ہدایت پر مارچ میں امریکہ کے پیٹرولیم ذخائر سے 180 ملین بیرل تیل کی فروخت سے بھی تیل کی قیمتیں کم ہوئی تھیں‘ امریکہ کئی ہفتوں تک اوپیک پلس میں شامل ملکوں کو تیل کی پیداوار بڑھانے پر قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا‘ صدر بائیڈن نے اپنے جولائی کے سعودی عرب دورے کے دوران بھی سعودی قیادت کو اس ہر آمادہ کرنیکی کوشش کی تھی مگر 5 اکتوبر کو اوپیک پلس نے الٹا تیل کی پیداوار میں 20 لاکھ بیرل یومیہ کمی کا فیصلہ کر دیا اس سے صدر جو بائیڈن اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے باہمی تعلقات، جو پہلے سے سردمہری کا شکار ہیں، مزید کشیدہ ہوگئے‘ امریکہ نے تیل کی پیداوار کم کرنے کے فیصلے کو روس کی طرفداری اور مایوس کن قرار دیااگرچہ صدربائیڈن سعودی عرب پر انسانی حقوق کے حوالے سے تنقید کرتے رہے ہیں مگر پھر انہیں احساس ہوا کہ جب ایران اور پیوٹن قریب آرہے ہوں تو امریکہ عرب ملکوں کو محض جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام اور بنیاد پر خود سے دور نہیں کرسکتا کیوں کہ روس اور چین تیار بیٹھے ہیں کہ وہ امریکہ کے پیدا کردہ خلا ء کو پر کر دیں‘اس دوران سعودی عرب کی چین اور روس کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی بڑھ گئی ہے‘ایران کے جوہری پروگرام، خطے میں بڑھتے ہوئے چینی اثر ورسوخ اور روسی عزائم اثر ورسوخ کے خطرات سے نمٹنے کیلئے امریکہ اب سعودی عرب کی پالییسوں سے چشم پوشی کرنے پر مجبور ہے‘ جو بائیڈن سمجھتے ہیں وہ سعودی عرب کے بغیر تیل کی قیمتوں کو نیچے لاسکتے ہیں نہ مشرق وسطیٰ میں استحکام اور اسرائیل اور عرب دنیا کے درمیان مستقل امن اس کے تعاون کے بغیر ممکن ہے وہ جانتے ہیں پیوٹن کیخلاف علاقائی اتحاد اور تیل کی مسلسل رسد یقینی بنانے کیلئے انہیں عرب ملکوں کی ضرورت ہے انہیں یاد ہے تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کا خیال ہے کہ عالمی معیشت میں متوقع کساد بازاری کی وجہ سے جب تیل کی طلب کم ہو جائے گی تو وہ تیل کی پیداوار کم کردیں گے‘سعودی عرب کسی وقت اپنے دفاع کیلئے امریکہ پر تکیہ کررہا تھا مگر کچھ عرصے سے سعودی قیادت آزادانہ فیصلے کر رہی ہے‘ اس کے فیصلے بالغ نظری، اعتماد اور دور اندیشی سے عبارت ہوتے ہیں اگرچہ روس اور یوکرین کی جنگ میں سعودی عرب امریکہ اور مغربی ممالک کی مرضی کے مطابق فیصلے نہیں کررہا مگر اس نے روس اور یوکرین میں کسی ایک کی حمایت کرنے کے بجائے دونوں سے تعلقات رکھے ہیں‘ امریکہ کی خواہش رہی ہے کہ سعودی عرب اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرلے مگر سعودی عرب کہتا آیا ہے کہ جب تک اسرائیل فلسطینی زمینوں پر قبضہ جاری رکھے گا اور فلسطینیوں پر ظلم ختم نہیں کرتا اسکے ساتھ سفارتی تعلقات ناممکن ہیں‘ سعودیہ اور امریکہ توانائی کے مسائل، غذائی تحفظ، موسمیاتی تبدیلیوں اور عالمی رسد میں چیلنجوں سے نمٹنے، عالمی مالیاتی منڈیوں، عالمی معیشت اور بحری نقل وحمل کی آزادی، ایران کی پالیسیوں، عراق کیلئے حمایت، شام اور لبنان کے بحران سے نمٹنے، فلسطین و اسرائیل اختلافات اور افغانستان میں امن و سلامتی جیسے مسائل کا حل تلاش کرنے کیلئے مشترکہ کام جاری رکھیں گے‘ تیل کے حوالے سے اس کی ضرورت اب کم ہوگئی ہے کیوں کہ اب امریکہ زیادہ تر تیل میکسیکو سے درآمد کرتا ہے ادھر عرب ممالک سے سفارتی تعلقات کے بعد اسرائیل کو خطرہ کم ہوگیا تو امریکہ اس حوالے سے تھوڑا مطمئن ہوگیا چنانچہ پچھلے چند برسوں میں امریکہ میں یہ احساس بڑھا کہ اسے مشرق وسطی سے ہاتھ کھینچ کر روس اور چین کے بڑھتے ہوئے عالمی اثر و رسوخ کو روکنے پر زیادہ توجہ دینی چاہئے۔