رواں ہفتے عدالت ِعظمیٰ (سپریم کورٹ آف پاکستان) نے چھیالیس سال کی طویل قانونی جنگ کے بعد بالآخر ایک عورت کو اُس کی وراثت کا حق دیا۔ یہ مقدمہ ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والی محترمہ زیتون بی بی کا ہے جسے اُس کے والد کی وراثت میں سے جائیداد کا حصہ نہیں دیا گیا کیونکہ وراثت میں اُسے حق دینے سے بھائی انکار کر رہے تھے اور یوں 1976ء میں پیدا ہونے والا یہ خاندانی تنازعہ عدالتوں سے ہوتے ہوئے سپریم کورٹ تک جا پہنچا‘ جہاں سے فیصلہ آیا ہے کہ بہن (بہنوں) کو جائیداد میں سے حصہ ملنا چاہئے‘ ہر مرحلے پر مقدمے کا فیصلہ خاتون کے حق میں آیا لیکن بھائی یہ فیصلہ تسلیم نہیں کرتے تھے اور یوں سال 2018ء میں یہ مقدمہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ تک جا پہنچا جو ملک کی سب سے اعلیٰ عدلیہ ہے‘ عدالت عظمیٰ نے محترمہ زیتون بی بی کے والد کی جائیداد میں اُس کے حصے کا حق تسلیم کرتے ہوئے بھائیوں کی اپیل خارج کر دی۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایک نہایت ہی خوش آئند پیش رفت ہے کیونکہ پاکستان میں بہت سی خواتین کو اُن کی وراثت نہیں ملتی اور اکثر اُنہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے خاندان کے مرد ارکان کے حق میں اپنی وراثت کو ’چھوڑ‘ دیں۔ اس طرز عمل کی وجہ سے لاتعداد خواتین مالی طور پر خود مختار ہونے کی بجائے اپنے بھائیوں یا اپنے شوہروں پر انحصار کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کی اکثریت محروم رہتی ہیں اور محکوم بھی کیونکہ وہ مالی طور پر مستحکم نہیں ہوتیں۔ محترمہ زیتون بی بی کے خاص مقدمے میں درخواست گزاروں کے وکیل نے دلیل دی کہ زیتون نے تقریباً نصف صدی قبل اپنا وراثت کا حق اپنے بھائیوں کو تحفے میں دے دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے بجا طور پر کہا کہ زیتون بی بی اس وقت نابالغ تھیں اور اپنی جائیداد اپنے بھائیوں کو تحفے میں نہیں دے سکتی تھیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اکثر خواتین کو اُن کی کم عمری میں جائیداد (وراثت) سے محروم کردیا جاتا ہے۔عورت کے مال میں حق اور اس کے آزادانہ استعمال کا تعلق دو باتوں سے ہے۔ ایک تو یہ کہ یورپ کے قانونی نظام میں زمانہ حال تک عورت کو ان میں سے کوئی ایک حق بھی حاصل نہیں تھا۔ قانونی طور پر وہ اپنے ان حقوق کو براہ راست استعمال کرنے کی بھی مجاز نہیں تھی بلکہ ان کا استعمال بالواسطہ طور پر کسی نہ کسی مرد‘ اپنے خاوند‘ باپ یا سرپرست کی وساطت سے کرتی تھی۔ دوسرے الفاظ میں حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی طرف سے عورت کو یہ حقوق ملنے کے بعد بھی گیارہ صدیوں سے زائد عرصے تک یورپ کی عورت اپنے ان حقوق سے محروم رہی‘ اسلام کا عورتوں کو وراثت و جائیداد رکھنے کا حق دینا معاشی حالات کے دباؤ یا کسی مظاہرے اور مہم کا نتیجہ نہ تھا بلکہ اس کی اصل وجہ اسلام کی یہ خواہش تھی کہ دنیا میں انسانی زندگی کی دو بنیادی حقیقتیں‘ صدق اور عدل‘ عملی صورت میں جلوہ گر ہوں‘گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس کو دیکھا جائے تو بدقسمتی سے پاکستان اُن ممالک کی فہرست میں دوسرا ملک ہے جہاں خواتین کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے‘ خواتین کو رشتے داریوں اور ثقافت یا روایات کے نام پر اور اِن کی آڑ میں ’جذباتی طور پر‘ بلیک میل کیا جاتا ہے علاوہ ازیں خواتین کی اکثریت اپنے حقوق سے آگاہ بھی نہیں ہوتی۔ سال دوہزاراکیس میں‘ خواتین کے املاک کے حقوق کے نفاذ (ترمیمی) بل کو منظور کیا گیا لیکن بہت سے دیگر قوانین کی طرح اِس قانون پر بھی خاطرخواہ سختی و بلاامتیاز عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آیا‘ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 23 کہتا ہے ”ہر شہری کو آئین اور عوامی مفاد میں قانون کی طرف سے لگائی گئی کسی بھی معقول پابندی کے تابع‘ پاکستان کے کسی بھی حصے میں جائیداد حاصل کرنے‘ رکھنے اور تصرف کرنے کا حق ہوگا“ اسلام کا خاصا یہ ہے کہ عورتوں کو اُن کے وراثت کے حقوق بھی دیتا ہے لیکن جب جائیداد میں حصے کی بات آتی ہے تو ان احکامات کو کسی نہ کسی طرح فراموش کر دیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت کہ نچلی عدالتوں کے فیصلوں کو بار بار چیلنج کیا گیا‘ ان لوگوں کے ضدی رویے کو ظاہر کرتا ہے جو جائیداد میں عورت کا حصہ قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ محترمہ زیتون بی بی کا کیس بہترین مثال ہے کہ خواتین کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے اور چاہے یہ جدوجہد کتنی ہی طویل اور سخت کیوں نہ ہو اور اِس کے لئے کتنے ہی عدالتی محاذوں پر جنگیں لڑنی پڑیں لیکن خواتین کو ہار نہیں ماننی چاہئے۔