حادثات‘لمحہ فکریہ

اگلے روز سندھ میں ایک بس میں آگ لگ گئی اور اس میں موجود  ایک ہی خاندان کے  اٹھارہ افراد جان بحق ہو گئے ہماری سڑکوں پر جو مختلف اقسام کی گاڑیاں آپ کو دوڑتی نظر آتی ہیں ان میں بلا مبالغہ نوے فیصد ایسی ہیں کہ ان کے مالکان نے ایک لمبے عرصے سے ان کو کسی ورکشاپ سے اس بات کی تسلی کرنے کے لئے چیک نہیں کرایا  کہ کیا ان کے ٹائر ٹھیک ہیں‘ ان کے ٹائی راڈ کا کیا حال ہے وغیرہ وغیرہ‘کیا ان کی بریکیں کام کر رہی ہیں کیا ان میں مختلف اقسام کے جو تیل ڈالنے ضروری ہوتے ہیں وہ وقت مقررہ پر ڈالے گئے ہیں‘ مختصر یہ کہ سرکاری سطح پر بھی اس قسم کی باریکیوں میں کوئی نہیں جا رہااسی لئے روزانہ ملک کی سڑکوں پر سینکڑوں افراد ٹریفک کے حادثات میں لقمہ اجل ہو رہے ہیں  کیا کسی ٹریفک کے اہلکار نے یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ گیس سے چلنے والی گاڑیوں کے اندر جو گیس سیلنڈر نصب کئے گئے وہ معیاری  بھی ہیں یا نہیں اور کیا وہ ایسی جگہ پر نصب تو نہیں کہ ان کے پھٹنے سے گاڑی میں بیٹھے مسافروں کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے‘ روزانہ دشمن دار لوگوں کے درمیان ممنوعہ بور کے آٹو میٹک اسلحہ کے استعمال سے درجنوں افراد ہلاک ہو رہے ہیں اور ارباب اقتدار نہ جانے کیوں ممنوعہ بور کے اسلحہ پر پابندی  نہیں لگا رہی ملک میں فائر بریگیڈ کے موثر نظام کے نہ ہونے کی وجہ سے روزانہ سرکاری اور نجی املاک میں آگ لگنے سے سینکڑوں افراد مر رہے ہیں‘ یہ جو آئے دن ملک میں بجلی کا لمبا لمبا بریک ڈان ہو جاتا ہے یہ صرف وطن عزیز میں ہی کیوں ہوتا ہے‘ اس کے تدارک کے لئے آخر ہم وہ تدابیر کیوں نہیں اختیار کر سکتے جو ان ممالک نے اختیار کر رکھی ہیں کہ جو اس قسم کے بریک ڈاؤن کے عذاب سے آشنا نہیں قصہ کوتاہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ وطن عزیز کے اکثر مسائل کی وجہ ملک میں  گڈ گورننس کا فقدان ہے‘ کرائمز میں اضافے کی وجہ یہ ہے کہ مجرموں کو قرار واقعی سزا نہیں مل رہی اور وہ بہ آ سانی اس لئے چھوٹ  جاتے ہیں کہ استغاثہ کے محکمے نے ان کے خلاف مقدمات کی موثر انداز میں پیروی نہیں کی ہوتی پولیس خصوصاً ا سکے نچلے کیڈرز میں مستحق افراد کے بجائے سیاسی سفارشات کی بنیاد پر بھرتی کی جاتی ہے جب تک یہ بھرتی اس قسم کے نظام کے تحت نہیں کی جائیگی کہ جو افواج پاکستان میں نافذ ہے۔