یہاں وہاں سے جو اطلاعات آ رہی ہیں وہ کچھ اچھی نہیں ہیں چھینا جھپٹی کی وارداتیں زیادہ ہو رہی ہیں‘پشاور ہو یا ارضِ وطن کا کوئی شہر ہر جا یہ ناسور زیادہ ہو رہا ہے پھر کمال یہ ہے کہ اس کا سدِ باب بھی نہیں‘کس کو کون کس مقام پر لوٹ لے کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا‘بھلے چنگے جا رہے ہوتے ہیں‘ساتھ بال بچے بھی ہوں تو چور اچکوں کو ان بچوں کا لحاظ بھی نہیں‘ پھر سی سی فوٹیج کیمروں میں ان کی شکلیں واضح نظر بھی آ رہی ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کو کوئی پہچان نہیں پاتا‘جیسے وہ پہاڑوں کے اوپرسے کہیں اتر کر آئے ہوں اور پھر واپس چلے گئے ہوں‘ دراصل وہ پہچان لئے جاتے ہیں مگر کون جا کر گواہی دے‘اس آگ میں اپنے آپ کو جھونک دے اور کہہ ڈالے کہ جس نے واردات کی ہے میں اس کو جانتا ہوں‘ پولیس کارندے ہرجگہ تو کھڑے نہیں ہو سکتے‘بس خاص خاص مقامات پر جہاں ان کے لئے کسی طرح ممکن ہوتا ہے وہاں کھڑے ہو کر ہر آنے جانے والے کی تلاشی وغیرہ لیتے ہیں مگر وارداتیں کرنے والے اتنے بے وقوف بھی تو نہیں ہوتے کہ اپنے آپ کو قانون کے حوالے کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار بیٹھے ہوں یہ تو چھلاوے ہوتے ہیں‘ہر علاقے میں وارداتیں ہو رہی ہیں مگر فرق یہ ہے کہ جس کو لوٹ لیں وہ اگر رپورٹ کرے تو اعداد و شمار میں لکھا آ جاتا ہے‘کیونکہ اکثر لوگ تو رپورٹ بھی نہیں کرتے انہیں اس کام میں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا‘ مال و اسباب نے واپس نہیں آنا ہوتا اور جرم کرنے والے تک پولیس کی رسائی نہیں ہوپاتی۔ اس لئے معاملہ اسی طرح التواء کا شکار ہو جاتا ہے ہمارے ایک دوست کا موٹرسائیکل کوئی لے گیا‘ وہ تھانے گئے ان سے کہا گیا کہ بیٹا آپ کا موٹر سائیکل نکلے گا نہیں بس صبر کرو‘آئندہ احتیاط کرو‘ہاں اگر چاہتے ہو توہم اپنے پاس سے آپ کو تھانے میں سٹور ک ئے گئے مختلف جرائم میں بازیاب ہوئے موٹر سائیکلوں میں سے کوئی ایک تھما دیتے ہیں‘بغیر کاغذ کے ہے‘ چلاؤ پھر دیکھا جائے گا مگر اس نے صبر کیا‘غیرت کا مظاہرہ کیا اور اس آفر کو قبول نہیں کیا۔یہی مسئلہ ہے کہ ٹوٹا پھوٹا موٹر سائیکل لینے سے کہیں بہتر ہے کہ قسطوں پرہی سہی اپنے لئے کوئی نیا ساموٹر بائیک نکلوا لیا جائے‘جون ایلیا نے خوبصورت شاعری کی ہے۔کہتے ہیں ”اب نہیں کوئی بات خطرے کی۔اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے“۔ اب حالات ا س نہج پرجا چکے ہیں کہ کھانے پینے کی اشیاء روز بروز گراں سے گراں تر ہوتی جارہی ہیں‘یوٹیلٹی سٹور پر سرکاری نئے اور مہنگے نرخ جاری ہوتے ہیں۔گھی مہنگا ہو گیا اور دوسری اشیاء بھی مہنگی‘سرکاری طور پر مہنگائی بڑھ جاتی ہے اور اس کا اعلان ٹی وی میں ہوتا ہے۔ پھر اسی کو سامنے رکھ کر سوچیں تو پرائیویٹ دکاندار کتنا زیادہ مہنگا کر تے ہوں گے‘ میں نے سبزی لی اور دکاندار نے شاپر میں تھوڑا سا دھنیا مفت میں ڈال دیا‘ہر چند کہ اس نے دھنیا کے پیسے پورے سودے میں اندر ہی اندر وصول کر لئے ہوں گے۔پھر مجھ پر یہ ظاہر کیا کہ جیسے میں نے حاتم طائی سے زیادہ سخاوت کامظاہرہ کیا ہے‘میں نے سوچا سبز مرچ کی طرح کچھ ہی دنوں میں دھنیا بھی دس بیس کا ملنے والا ہے اگر یہی گرانی رہی تو اس طرح کی وارداتیں زیادہ سے زیادہ ہو جائیں گی‘ ذرا مین روڈ سے نیچے کے علاقوں میں جا کر دیکھیں او رسنیں تو وہاں وارداتیں بہت زیادہ ہو رہی ہیں کیونکہ وہاں پولیس خود بھی جاتے ہوئے کتراتی ہے۔پھررات کو بائیک پر جا رہے ہیں تو آگے والی موٹر سے ڈر لگنے لگتاہے اور بندہ کہتا کہ میں اس کو کراس کر کے سائیڈ کی پتلی سڑک سے چلا جاؤں‘ پھر اندازہ ہوتا کہ خودموٹر والا بھی ہمارے بائیک سے خوفزدہ ہو کر اپنی کار کی سپیڈ بڑھا دیتا ہے‘اس لئے کہ شاید اب موٹر سائیکل سوار ہمارے اوپر فائرنہ کر دے‘ہر ایک کو ہر ایک سے خطرہ محسوس ہونے لگا ہے۔کچھ تو موبائل اور نقدی چھین لینے کی واردات کا ڈر ہے موٹر بائیک والے کو دوسرے موٹر سائیکل والے سے ڈر لگتا ہے‘اسلام آباد سے ہر ہفتہ آنے والا ایک کمپنی کامنیجر چھٹی پربچوں کو لے کر بائیک پرنکلا او رقریب کے شاپنگ مال پرخریداری میں مصروف تھا دکان سے باہر نکلا تو اچانک اس کے سر پر پستول کی نال رکھ کر ڈیڑھ لاکھ کا موبائل اور رقم بھی ہتھیا لی۔