عوام دوست سیاست کی ضرورت

اس وقت ایک بار پھر سیاسی میدان گرم ہے اور خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کے تین حلقوں میں آج ضمنی انتخابات کے لئے پولنگ ہو رہی ہے۔اس سے قطع نظر کہ الیکشن میں کون جیتتا ہے اور کون ہارتا ہے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ عوام دوست سیاست کا سلسلہ چلتا رہے، کیونکہ انتخابی عمل جمہوریت کا لازمی حصہ ہے اور اس میں اسی جذبے سے حصہ لینا چاہئے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت عوام دوست سیاست کی جتنی ضرورت ہے شاید ہی کبھی ہو۔خوش قسمتی سے اس ملک میں کچھ ایسے سیاسی گھرانے ہیں کہ جنہوں نے عوام دوست سیاست کو اپنا وطیرہ بنا رکھاہے۔ ان سب کی اپنے اپنے حلقوں کے عوام کے لوگوں کیلے سماجی خدمات ضرب المثل ہیں اور سیاسی حلقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ان کے اخلاق خلوص اور ان کی بے لوث خدمات کیلئے ان کی قدر کرتے ہیں۔ سیف اللہ خاندان بھی ان میں سے ایک ہے۔ جنہوں نے اپنے حلقہ انتخاب میں عوامی فلاح و بہبود کے کئی ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا ذاتی سطح پر بھی وہ عوامی فلاح و بہبود کیلئے کئی ادارے چلا رہے ہیں۔ اس جملہ معترضہ کے بعدآتے عالمی منظر نامے کی طرف جہاں پاکستان نے گزشتہ روز کہا کہ روس یوکرین تنازع پر اس کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

یہاں یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان نے عالمی تنازعات میں غیر جانبدار رہنے کو ترجیح دی ہے۔اپنی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران دفتر خارجہ کے ترجمان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب پاکستان نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے دباؤ کے باوجود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں روس کے خلاف قرارداد کیلئے ووٹ دینے سے گریز کیا۔ترجمان نے کہا کہ ہم دنیا میں کسی بھی بلاک کی سیاست کا ایک حصہ نہیں بننا چاہتے اور یہ یوکرین کے بارے میں موقف اصولوں پر مبنی ہے،ہم تمام بڑی طاقتوں بشمول امریکا اور چین کے ساتھ وسیع البنیاد، معروضی، متوازن اور باہمی فائدہ مند تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ تاہم اس غیر جانبداری کی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے اور اس کی تازہ ترین مثال امریکی صدر کی طرف سے پاکستان کے جوہری پروگرام پر تنقید ہے۔ ایسے حالات میں کہ جب بھارت جیسا ملک پوری دنیا کے امن کیلئے خطرہ بنا ہو اہے، امریکی صدر نے پاکستان کو اپنے نشانے پر لیا۔ اس کی بڑی وجہ پاکستان کی غیر جانبداری ہے جس نے امریکہ کو مشتعل کیا ہے۔ وفاقی وزیرِ توانائی خرم دستگیر نے ایک پریس کانفرنس کے دوران سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر نے پاکستان سے متعلق جن شکوک و شبہات کا ذکر کیا ہے وہ بالکل بے بنیاد ہیں۔ 

پاکستان کا جوہری کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم بالکل محفوظ ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے بھارت میں جوہری مواد کے غیر محفوظ ہونے کے کئی ثبوت سامنے آئے اور کئی واقعات میں جوہری مواد کو سمگل کرنے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بھارت کے قریبی دوست ملک امریکہ کو پہلی فرصت میں اس معاملے پر تشویش کا اظہار کرنا چاہئے تھا، تاہم اس نے آنکھیں بند رکھیں اور اس معاملے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی۔اب ایک اور اہم مسئلے کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرتے ہیں۔ جہاں جرمن غیرسرکاری تنظیم ویلٹ ہنگر ہلفے نے ایک تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ جنگی تنازعات، ماحولیاتی تبدیلیوں اور کووِڈ کی عالمی وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں بھوک اور افلاس میں اضافہ ہوا ہے۔ویلٹ ہنگر ہلفے کی جانب سے بھوک کا عالمی انڈیکس برائے 2022 جاری کیا گیا ہے، جس کے مطابق جنگی تنازعات، ماحولیاتی تبدیلیوں اور کورونا وائرس کی عالمی وبا کے علاوہ مختلف ممالک میں انتظامی سطح پر موجود خرابیوں کی وجہ سے بھوک اور افلاس کے خلاف لڑائی کو متاثر کیا ہے۔ویلٹ ہنگر ہلفے کے مطابق اس رپورٹ کے لیے استعمال کیا جانے والا ڈیٹا یوکرینی جنگ سے پہلے کا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یوکرین کی جنگ نے پہلے سے خراب صورت حال کو مزید ابتر بنایا ہے۔

ویلٹ ہنگر ہلفے کے مطابق پچھلے برس کے مقابلے میں دنیا بھر میں بھوک سے متاثرہ افراد کی تعداد آٹھ سو گیارہ ملین سے تجاوز کر کے آٹھ سو اٹھائیس ملین ہوئی ہے، جن میں 193 ملین خوراک کی شدید قلت کے شکار افراد شامل ہیں۔اس تنظیم نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ یوکرینی کی جنگ کی وجہ سے عالمی سطح پر خوراک، توانائی اور کھادوں پر قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، جس سے آئندہ وقت میں صورت حال کو مزید خراب ہو سکتی ہے۔اس تنظیم کے انڈیکس میں 121 ممالک کو چار اشاریوں کی مدد سے جانچا گیا ہے، جس میں یمن سرفہرست ہے، جہاں ملک کی 41 اعشاریہ چار فیصد آبادی بھوک سے متاثرہ ہے۔ اس انڈیکس میں جنوبی ایشیا اور سب صحارن افریقہ کے خطے میں بھوک اور افلاس کی شرح بلند ترین بتائی گئی ہے۔امریکہ اور مغربی ممالک کی اب یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کی اس سلسلے میں خاطر خواہ مد دکریں اور جنگ و جدل کی بجائے امن کے قیام اور ترقی پذیر ممالک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔