امریکی صدر کا بے بنیاد بیان

 امریکی صدر بائیڈن نے پاکستان کے اٹیمی پروگرام پر اگلے روز جو بیان دیا ہے اس پر اگر دنیا کے کسی ملک کا رد عمل وطن عزیز کے عوام کو اچھا لگا ہے تو وہ پاکستان میں کیوبا کے سفیر کا ہے کہ جنہوں نے کہا ہے کہ شہریوں پر اٹیم بم کس ملک نے استعمال کئے۔ہمیں اس ضمن میں آج ایک پاکستانی سابق صدر غلام اسحاق خان بھی یاد آئے کہ جب ان کے دور صدارت امریکہ نے پاکستان پر اپنا اٹیمی پروگرام رول بیک کرنے کیلے پریشر ڈالا تو انہوں نے دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے صاف صاف انکار کیا۔جب امریکہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ امریک کسی بھی تیسری دنیا کے ملک میں اٹیمی ہتھیار دیکھنا نہیں چاہتا تو غلام اسحاق خان نے امریکہ سے سوال کیا کہ کیا ناگا ساکی اورہیرو شیما پر اٹیم بم کسی تیسری دنیا کے ملک نے پھینکا تھا۔ہمیں بھی پاکستان میں کیوبا کے سفیر یا غلام اسحاق خان کے مندرجہ بالا موقف کی طرح اس معاملے میں سخت موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکی صدر کا یہ بیان غیر ضروری تھا کیونکہ ہمارا اٹیمی پروگرام موثر تکنیکی اور فول پروف کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے زیر انتظام ہے دنیا کو اصل خطرہ اسلحہ کی دوڑ  اور بھارت کے غیر محفوظ ایٹمی پروگرام سے  ہے۔ جہاں آئے روز جوہری مواد کے غیر متعلقہ افراد کے ہاتھوں لگنے کے واقعات سامنے آرہے ہیں اور ساتھ ہی ان کا میزائل پروگرام بھی غیر موثر اور ناقابل اعتماد ہے۔ پاکستان کی طرف ان کے میزائل کے آنے کا واقعہ زیادہ پرانا نہیں۔ جس پر بھارت نے پردہ ڈالنے کی کوشش کی تاہم بعد ازاں یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ بھارت کا میزائل نظام ناقابل اعتماد ہے اور کسی بھی حادثے کی صورت میں برصغیر میں جوہری جنگ چھڑنے کے خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان حالات میں بجائے اس کے کہ بھارت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا اور اس کے جوہری پروگرام کے غیر محفوظ ہونے کے حوالے سے امریکہ اپنے تحفظات کا اظہار کرتا الٹا پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس کے جوہری پروگرام اور ہتھیاروں کی  حفاظت کے نظام کو پوری دنیا میں سراہا گیا ہے۔ادھر روسی صدر نے خبردار کیاہے کہ اگر نیٹو افواج نے یوکرین میں براہ راست روس کے ساتھ جنگ کی تو پھر عالمی سطح پر تباہی ہو سکتی ہے۔ روسی صدر نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ وہ روس کی سلامتی کیلئے جوہری ہتھیار بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ خدا کرے کہ یوکرین اور تائیوان کے مسائل کے حل کیلئے اقوام متحدہ موثر اقدامات اٹھائے کیونکہ جب تک یہ دو مسئلے حل طلب رہیں گے۔ تیسری عالمگیر جنگ کا خطرہ دنیا کے سر پر منڈلاتا رہے گا اور چونکہ اس جنگ میں اٹیمی ہتھیار استعمال ہوں گے یہ طول نہیں پکڑے گی اور اس سے بہت جلد کرہ ارض سے انسانوں کاخاتمہ ہو سکتا ہے۔ اب ایک اور اہم مسئلے کی طرف آتے ہیں۔ دنیا میں توانائی کے بحران کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انگلستان اور دیگر یورپی ممالک کی کئی حکومتیں پریشان ہیں کہ امسال سردیوں میں ان کے عوام اپنے گھروں کو گرم کیسے رکھ سکیں گے۔یوکرین اور روس کے تنازعے سے توانائی کے شعبے میں تعطل پیدا ہوا ہے۔روس نے جرمنی سمیت یورپ کے کئی ممالک کو گیس کی سپلائی معطل کی ہے اور اب وہاں پر سردیوں میں توانائی بحران سر پر کھڑا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یورپ کے اکثر ممالک کو روس ہی گیس سپلائی کرتا ہے اور وہاں تک سپلائی کا ایک موثر اور کارگر نظام موجود ہے۔ یوکرین جنگ سے قبل یورپ نے اس نظام کے متبادل کے بارے میں سوچا تک نہیں تھا۔ تاہم اب جب روس  نے یورپ کو گیس کی بندش کا فیصلہ کیا ہے تو ان ممالک میں ہلچل مچ گئی ہے۔ کہ کس طرح سردیوں میں گھروں کو گرم رکھا جائے گا اور کس طرح معمول کی زندگی کو جاری رکھا جاسکے گا کیونکہ ان ممالک میں شدید سردی میں گھروں کو گرم رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ادھر چونکہ ہم کو متحدہ عرب امارات اور آزر بائیجان سے پی او ایل مصنوعات اور ایل این جی حاصل نہیں ہو سکی کیونکہ ان ممالک نے یہ جواب دیا ہے کہ ان کا ایندھن یورپ کے لئے مختص ہے تو اس لئے پاکستان نے رعایتی قیمت پر روس سے ایندھن خریدنے کی کاوش شروع کر دی ہے ساتھ ہی اگر افغانستان کے ساتھ تجارت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے تو یہ دونوں ممالک کے فائدے میں ہے کیونکہ افغانستان اور پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع ہی کچھ ایساہے کہ اس خطے کے امن عامہ کیلئے ان دونوں ممالک کایک جان دو قالب ہو کر رہنا ضروری ہے‘ بقول کسے یہ دو ممالک آپس میں ایسے جڑے ہوئے ہیں کہ دونوں ایک دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں‘یہ بات ان دونوں ممالک کے مفاد میں ہے کہ وہ ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور کسی تیسری طاقت کی شہ پر ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مخل نہ ہوں نیز آپس میں ایسے تجارتی روابط کو فروغ دیں کہ جن سے ان کی معیشت مضبوط ہو اور اگر پاکستان افغانستان اور ایران پر مشتمل تجارتی بلاک بن جائے تو پھر تو یہ سونے پر سہاگے والی بات ہو سکتی ہے۔