سلامتی کونسل کا اجلاس 

میں نے اس اجلاس میں کہا کہ میں آج کا کالم کس موضوع پر لکھوں۔ وہ اول تو حیران ہوئے۔کہنے لگے یہ کیوں۔ آپ تو بنا کسی سے پوچھے کبھی کاغذ قلم لے کر اور کبھی کمپیوٹر کی بورڈ پر مست و رقصاں ایک ساں لگے رہتے ہیں۔مگر آج یہ آپ کو کیا ہوا۔ میں نے عرض کیا بڑے بڑے شہروں میں چھوٹی چھوٹی باتیں ہو جاتی ہیں۔پھر ایسا بھی کیا ہوا کیا میں نے کوئی عجیب بات کر دی ہے۔یہ تو عین ممکن ہے کہ بندہ ایک حال میں نہیں رہ سکتا۔یہ دنیا ہے کمی بیشی ہو جاتی ہے۔کبھی ایک دن میں دو کالم بھی لکھ کر ایڈوانس میں رکھ لیتے ہیں کبھی ایک بھی لکھا نہیں جاتا۔ یہ سلامتی کونسل گھر کی ہے۔اس میں مختلف ممبران ہیں کہیں تو بڑی بیٹی ہے اور کہیں بیگم صاحبہ ہیں اور کبھی تو چھوٹی بیٹی سے بھی مشورہ اوراستفسار کرنا پڑتا ہے۔ جیسے صبح ناشتے کے بعد ایک کورنگ کمیٹی کی ہلکی پھلکی میٹنگ ہو جاتی ہے کہ آج کیا پکائیں۔ خیر اس موقع پر کوئی مہمان بھی آیا ہو تو وہ بھی سلامتی کونسل کے اس ہنگامی اجلاس کا ایمرجنٹ ممبر بن کر مشورہ دینے کا اہل ہوتا ہے۔ہم کسی کو نااہل نہیں قرار نہیں دیتے۔ کبھی بچوں کے منہ سے آپ ایسی بات سنیں گے جو آپ کو آپ کے مسئلے میں مدد دے گی۔ کبھی گھر میں بیٹے اگر موجود ہوں تو وہ بھی اس اجلاس میں شریک ہوتے ہیں اور باہم مشورت سے کسی نہ کسی مسئلے پر توجہ دلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ہر نسل اور ہر عمر کے لڑکے ہوں یا لڑکیاں ہو ان کے اپنے مسئلے اور اپنی سوچ ہو تی ہے۔دور نہ جائیں صبح عین ناشتے کے وقت سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج چارسدہ علی اکبر صاحب کا فون آگیا۔وہ پنشن لینے والوں کے مسائل بتلا رہے تھے۔چاہتے تھے کہ ان کے سارے کے سارے پوائنٹس میں اپنے اس کالم میں بیان کروں۔مگر تفصیل اتنی زیادہ تھی کہ میرے بس میں نہ تھا کہ میں ان کی دی ہوئی معلومات کواپنے اس کالم کے چھوٹے سے چوکھٹے میں تصویر کی صورت میں اتار دوں۔لڑکے تھے وہ تعلیمی مسائل کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش میں تھے۔ فیسوں کا بوجھ یہ وہ۔ لڑکی کتابوں کے بوجھ کے متعلق بتلانا چاہتی تھی کہ چھوٹے بچوں کی کمروں ان کے بستے لادے ہوتے ہیں جیسے کسی مزدور کی پیٹھ پر سیمنٹ کی بوری اٹھادی گئی ہو۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کون سا مسئلہ لکھوں اور کس مسئلے کو پسِ پُشت ڈال دوں۔ بیگم صاحبہ ہیں وہ اشیائے خوردو نوش کے نرخ بتلارہی تھیں۔وہ فرماتی ہوئی پائی گئیں کہ کون کون سی چیز کتنی مہنگی ہوگئی ہے۔جس چیز کا پوچھو عام نرخوں سے دگنا تگنا زیادہ ہیں۔ پھر بڑی بیٹی روٹی کی قیمت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کررہی تھیں۔ کہتی تھی ہائے دس روپے کی روٹی کیسے اتنی زیادہ قیمت پر فروخت ہو نے لگی ہے۔میں ہنسا او رکھل کر ہنسا جیسے مجھ پر پاگل پن کا دورہ پڑا ہو۔ مگر میں اپنے پورے ہوش میں تھا۔ میں نے کہا ارے دس روپے تو یہ کل کی بات ہے۔میں تو ایک روپے میں آٹھ روٹیاں لایا کرتا تھااس بات کو بھی تو زیادہ عرصہ نہیں گزرا بس یہ چالیس سال ہی تو گئے گزر گئے۔ پھر میں نے اپنے دادا جان مرحوم کی ڈائری کی طرف اس کی توجہ سمیٹی کہ اس زمانے میں کہ جب1960کی سن نہیں آئی تھی۔انہوں نے اپنی بچیوں کی شادیاں ڈھائی تین سو روپے میں کی ہیں۔شادی بھی تو مجھے قبول والی چار آدمیوں کا نکاح نہیں بلکہ بھرپور شادی تھی جو عام طور سے آج کل ہوتی ہیں اور جن پر لاکھوں کا خرچہ آتا ہے۔بڑالڑکا ابھی دیر سے گھرآیا وہ اس اجلاس میں آتے ہی شریک ہوا۔ کیونکہ وہ کالج سے آیاتھا اور موٹر بائیک پر آیاتھا۔ یہ شہر میں بس ایک ہی سواری ہے جو انتہائی رش میں بھی تیز رفتاری اور زگ زیگ ہو کر کہیں سے کہیں نکل جاتی ہے۔اگر وہ کالج سے آتے ہی لب شکایات وا کررہا تھا تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شہر کی سڑکوں پر کتنا رش ہو سکتا ہے۔خاص طور پر سکول سے چھٹی کے ٹائم تو سڑکیں مارے رش کے جیسے ہوا میں معلق پل ہو جھول رہی ہوتی ہیں۔ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح اس رش میں راستہ بنا کر منزل کی طرف گامزن ہو تاہم یہ مرحلہ کچھ ایسا آسان بھی نہیں ہوتا اور جو اس مرحلے کو سر کرلے سمجھو کہ وہ مشکل سے مشکل کو آسانی سے کرنا سیکھ جائیگا۔ اسے ایک طرح سے ایک تربیت سمجھا جائے تو بہتر ہے یعنی اس رش کی مارا ماری میں بہتری کا پہلو بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔اس نے کہا ٹریفک الجھاؤ میں پھنسا ہوا تھا۔ راستہ نہیں مل رہا تھا میں ساتھ والی گلی سے ہوکر دوسری گلی میں منتقل ہوا اوروہاں سے تیسری گلی کی موڑ کاٹ کر سڑک پر آیا۔یوں میں اس قابل ہوا کہ کلاسو ں میں پڑھانے کی محنت کو بھول جاتا‘ کیونکہ پڑھنااپنی جگہ دماغ کا درد ہے اور پڑھانا تو اس سے زیادہ بوجھل کا م ہے جس کو ہم روز انجام دیتے ہیں مگر تھکتے نہیں ہیں۔مگر اس راستے کی بندش اور رش کی وجہ سے دماغ ماؤف ہو جاتا ہے۔پھر بندہ اس قابل نہیں رہتا کہ کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل ہو۔وہاں سے بیگم بول اٹھیں آپ اس سیاست پر کیوں نہیں لکھتے جو آج کل چل رہی ہیں کہ میں تجھے گرفتار کروں تو مجھے گرفتار کا کھیل کھیلا جا رہاہے اور اس میں سب ہی حصہ ڈال رہے ہیں۔میں نے کہاسیاست سے تو مجھے خدا واسطے کی الرجی ہے۔میں چاہوں بھی تو میرا قلم عام مسائل کو چھوڑ کر سیاست کے موضوع کو کبھی دامِ تحریر میں نہیں لائے گا کہ یہ ٹاپک کچھ ہمارے مزاج کے خلاف بھی ہے اور پھر اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں سیاست پر لکھنے والوں کی کمی بھی نہیں اور پڑھنے والے بھی سیاست اوراس کے اثرات اور مضمرات کو پڑھ پڑھ کر بوجھل محسوس کرنے لگتے ہیں اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ ہلکے پھلکے موضوعات پر ان کو پڑھنے کیلئے مواد میسر ہو۔