کتنا بڑا فرق ہے امریکی حکمرانوں اور چینی حکمرانوں کی سوچ میں،ایک طرف امریکی خبط عظمت کا شکار ہو کر دنیا کے طول و عرض میں پھیلنا چھا رہے ہیں تو دوسری طرف چین توسیع پسندی کی جستجو ترک کرنے کا اعلان کر رہاہے۔ بیجنگ میں اگلے روز کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی 20 ویں قومی کانگریس کے پہلے اجلاس میں دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی مخالفت کی گئی۔اس اجلاس میں کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری نے کہا کہ چین ہر قسم کی بالا دستی اور طاقت کی سیاست سرد جنگ کی ذہنیت دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور دوہرے معیار کی مخالفت کرتا ہے اور پر امن آزاد خارجہ پالیسی پر مضبوطی سے عمل پیرا ہے۔ خدا لگتی یہ ہے کہ چین کی قیادت کو قدرت نے کافی دانش بخشی ہے۔ اس کی تاریخ پر گہری نظرہے اور اسے احساس ہے کہ ماضی میں کئی سپر پاورز نے خبط عظمت میں اپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلائے اور وہ اپنے ہی وزن کے نیچے دب کر صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ اب کچھ تذکرہ امریکی صدر کے بے سروپا بیان کا ہوجائے جس میں اس نے پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے سے بے بنیاد خدشات کا اظہار کیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ خود امریکی ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ جو بائڈن کا حالیہ بیان امریکہ کو فائدہ کی بجائے نقصان دے گا۔ ان کے پاکستان کے بارے میں بیان سے دو طرفہ تعلقات متاثر ہوں گے۔امریکہ کو بھارت کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرنا چاہئے جس کے جوہری اثاثے حد درجہ غیر محفوظ ہیں اور تابکار مواد کا غیر متعلقہ افراد کے ہاتھوں لگنے کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔دوسری طرف بھارت میں برسرا قتدار بی جے پی کا رٹریک ریکارڈاقلیتوں کے حوالے سے کافی حد خراب ہے۔بھارت میں مسلمانوں سمیت اقلیتوں پر زندگی تنگ کر دی گئی ہے اور انہیں امتیازی قوانین کا سامناہے۔انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے بھارت پر اس ضمن میں تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک خاص منصوبے کے تحت ہندوا ایجنڈے پر عمل پیرا مودی سرکار اقلیتوں کو دیوار سے لگا رہی ہے۔ایسے حالات میں کہ جب بھارت کے ہاتھوں عالمی امن کو خطرات درپیش ہیں امریکہ کی پاکستان پر تنقید سمجھ سے بالا تر ہے اور اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکہ جان بوجھ کر بھارت کے انسانی حقوق اور جوہری نااہلی پر آنکھیں بند کرکے اپنے مفادات کی تکمیل میں مصروف ہے۔اب بات کرتے ہیں چین کی جہاں ریسرچ کا یہ عالم ہے کہ اس نے خالصتاً ملکی سطح پر تیار کردہ 13.8 میگاواٹ کی ہوائی چکی کی باقاعدہ پروڈکشن شروع کر دی ہے۔ جس سے ملک میں ریسرچ کے شعبے کو ایک نئی جہت ملی ہے۔ ہوائی چکی کے پروں کا قطر 252 میٹر ہے جبکہ ہوائی چکی مجموعی طور 50 ہزار مربع میٹر کے علاقے میں پھیلی ہوئی ہے۔ صرف ایک پون چکی سالانہ 63.5 ملین کلو واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کی حامل ہے جس سے تین افراد پر مشتمل 30 ہزار گھروں کی ضرورت پوری ہو سکے گی۔ اس سے نہ صرف توانائی کی بچت ہوگی بلکہ ماحول دشمن گیسوں کے اخراج کی روک تھام بھی ممکن ہو پائے گی۔