تخفیف ِاسلحہ‘ دفاع اور پاکستانی تجویز

امریکی صدر جوبائیڈن کے پاکستان سے متعلق بیان (پندرہ اکتوبر دوہزاربائیس) سے شروع ہونے والی عالمی بحث میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان کی جانب سے ایک مرتبہ پھر دنیا کو باور کرایا گیا ہے کہ پاکستان کی جوہری صلاحیت محفوظ ہاتھوں اور کڑی نگرانی میں ہے جبکہ عالمی سطح پر جوہری اسلحے پر نظر رکھنے سے متعلق قواعد ”کنٹرول آرڈر“ پر نظرثانی وقت کی ضرورت ہے جو فی الوقت ایک ”غیر یقینی پر مبنی تصویر اور تصور“ پیش کر رہی ہے۔ پاکستان نے سٹریٹجک ہتھیاروں کی ضرورت اور اِس میں وقتاً فوقتاً اضافے کے ساتھ‘ زیادہ پائیدار اور مساوی بین الاقوامی سلامتی کے ڈھانچے کی تعمیر نو پر زور دیا ہے۔ رواں ہفتے پاکستانی سفیر خلیل ہاشمی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی فرسٹ کمیٹی کو بتایا ہے کہ ”عالمی سطح پر جوہری تخفیف اسلحہ کے اعلانات تو کئے جاتے ہیں لیکن اِس سے متعلق ذمہ داریاں خاطرخواہ پوری نہیں ہوئی ہیں۔“ سفیر ہاشمی‘ جو جنیوا میں اقوام متحدہ دفاتر میں پاکستان کے مستقل نمائندے ہیں نے یہ بھی کہا ہے کہ ”مستثنیات اور امتیازی پالیسیوں کی پیروی سے دیرینہ قوانین کی سالمیت کو ختم کیا جا رہا ہے۔“ انہوں نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں کہا تھا کہ ”سٹریٹجک دائرے میں رہتے ہوئے جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جوہری
 صلاحیت‘ بیرونی خلا نوردی‘ سائبر ہتھیار سازی اور انضمام کی وجہ سے فوجی صلاحیتیں کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔ روایتی اور آرٹیفیشل انٹلی جنس (مصنوعی ذہانت) رکھنے والے آلات نے صورتحال کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے جس کے بعد سے ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے متعلق عالمی بندوبست پر نظرثانی کی جائے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ دنیا میں جوہری خطرات بڑھ رہے ہیں اور جوہری جنگ کے امکانات پہلے سے کہیں زیادہ دکھائی دے رہے ہیں جس کا ذکر امریکہ کے صدر نے روس یوکرین جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کیا ہے۔ گنتی کے چند ممالک اپنے فائدے کے لئے جمود بنائے ہوئے ہیں اور جوہری ہتھیاروں میں تخفیف نہیں چاہتے لیکن دوسروں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اِن کی بات مانیں۔ اِس زبردستی کی وجہ سے سیاسی اور فوجی کشیدگی‘ سٹریٹجک عدم توازن اور جوہری خطرات بڑھ رہے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ ان خطرات میں سے بہت سے پریشان کن رجحانات کا تعلق جنوبی ایشیا سے ہے جہاں سب سے بڑی ریاست جوہری استثنیٰ اور
 بین الاقوامی اصولوں اور قانونیت کے اطلاق میں امتیازی سلوک کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔ عالمی امن اور جوہری خطرات کے لئے بظاہر فکرمند ممالک کو بھارت دکھائی نہیں دے رہا! جو انسانی حقوق کا بدترین ماضی رکھتا ہے جبکہ بھارت روایتی اور غیر روایتی ہتھیاروں‘ ٹیکنالوجی اور اِس کی تحقیق کے پلیٹ فارمز کی فراخدلی سے سرپرستی بھی کر رہا ہے۔ جوہری ہتھیار اور ان کی ترسیل (منتقلی) روکنے کا نظام موجود نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ پائیدار اور مساوی بین الاقوامی سلامتی کے ڈھانچے کی تعمیر نو کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔اسلحے اور فوجی افرادی قوت کی ممکنہ حد تک کم ترین سطح سے متعلق بھی عالمی سطح پر قواعد وضع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی ایک ملک کی اپنے دفاع کے نام پر ہمسایہ ممالک کو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ رک سکے جیسا کہ بھارت پاکستان پر دباؤ ڈالتا رہتا ہے۔ پاکستان نے دنیا کو تجویز دی ہے کہ ایک جامع جوہری ہتھیاروں کے کنونشن پر مذاکرات کئے جائیں۔ اِس سلسلے میں تخفیف اسلحہ سے متعلق بھی غوروخوض ہونا چاہئے۔ پاکستان کا خیال ہے کہ جوہری صلاحیت اور جوہری ہتھیاروں سے متعلق اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے ’معاہدہ‘ عالمی مذاکرات کا مرکزی نکتہ ہونا چاہئے اور اس کے لئے درکار اعتماد سازی اور عالمی سطح پر پائی جانے والی غلط فہمیاں جو کہ تناؤ کا باعث بن رہی ہیں‘ اُن کا ازالہ کرنے کے لئے کوششوں میں بھی تیزی لائی جانی چاہئے۔