میں ہسپتال کے لال ریکسین والے بستر پر دراز تھا۔ قطرہ قطرہ خون میری رگوں میں سے باہر رواں دواں تھا۔بجائے اس کے کہ مجھے ایک موٹی سی سوئی کے چھبنے کی تکلیف ہوئی ہوالٹا مجھے ایک راحت محسوس ہوئی۔میں کسی کے کام آ رہا تھا۔ قطرہ قطرہ خون ٹپک ٹپک کر بیڈ کے نیچے پڑے بیگ میں جمع ہو رہا تھا۔ یہاں میرا ٹکروں میں بکھرا ہوا دل جیسے اسی سوئی کے ساتھ سلائی کر کے جوڑا جا رہا تھا۔ یہ مرحلہ وارتالیفِ قلب میرے لئے دلی اطمینان کا باعث تھا۔ایک بچہ جس کے والد کو چند روز قبل کسی نے وہاں اس کے علاقے میں قتل کر دیا تھا۔ ایمرجنسی میں پڑے اس یتیم کو خون کی اشد ضرورت تھی۔ مجھے صورتِ حال کی نزاکت کا پتا چلا تو مجھ سے نچلا نہ بیٹھا گیا۔ میں نے گھر میں کمپیوٹر کی تاریں واریں کھینچ لیں اور سوئچ آف کر کے اپنے لوہے کے گھوڑے کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دیں۔ پھر سیدھا خون کے ہسپتال پہنچ گیا۔ کیونکہ کسی کو میری ضرورت تھی اور وہ بھی بچہ اور پھر تشویش ناک حالت میں۔وہاں مجھ سے کسی نے نہ کہا کہ یہاں بستر پر لیٹ جائیں۔ چونکہ ہمارا ہر تین مہینے بعد کا اور کبھی جلدی میں عام روٹین کا کام ہے۔اس لئے میں چپل اتار کر سرخ بیڈ پر اپنا بایاں بازو عریاں کر کے اس نیکی کو انجام دینے کے لئے تیار ہو کر تکیہ پر سر رکھ کر دراز ہوا۔ میں انسانیت کے کام آرہاتھا۔ایک یقینِ کامل تھا کہ میں خون عطیہ کر دوں مجھے کچھ نہیں ہوگا۔کیونکہ میری یہ پہلی بار تو نہیں تھی۔ یہ تو 140ویں مرتبہ تھی۔ سن 1987ء سے یہ فریضہ سر انجام دے رہا ہوں۔ مجھے بہت جلدی تھی کہ خون کی تھیلی دوں اور تھیلی سیمیا کے اس مریض بچے تک پہنچے۔ پھر میں بھی اپنے ادھورے کام کو جسے چھوڑ کر یہاں آیاتھا سرانجام دینے کو واپس گھر لوٹ جاؤں۔جب میری رگ سے خون رواں ہو رہا ہوتا ہے اس وقت تائید ِ خدا وندی کا احساس بھی اسی رگ میں سے ہوکر میرے دل و دماغ تک اوپرپہنچ رہا ہوتا ہے۔یہ
وہ لطف ہے جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہے۔کیونکہ ملک کی بائیس کروڑ کی آبادی میں زیادہ سے زیادہ دس فی صد لوگ خون کا عطیہ دیتے ہیں۔باقی حضرات کو یا تو خون دینے کی اہمیت کا احساس نہیں۔پھر یاتو ان کو کسی نے گائیڈ نہیں کیا یا پھر وہ خون دینے سے ڈرتے ہیں۔اصل میں بعض نوجوان بھی خون دینا ہو تو خوف کے مارے لرز جاتے ہیں۔حالانکہ جب میں نے خون دینے کا آغاز کیا تھا تو اس وقت میری عمر خود 21 برس تھی۔پھر اس وقت خون دینے کی اہمیت سے بہت کم ہی لوگ واقف تھے۔شاید ایک فی صد سے بھی کم ہوں۔میں نے کسی سے کہا نہیں تھا اور 85مرتبہ خون کا عطیہ دے چکا تھا۔ خود گھروالوں کو بھی میری اس خدمت کا حال معلوم نہ تھا۔ مگر ہمارے گورنمنٹ کالج پشاور میں ایک بار جب بلڈکیمپ لگا تو انچارج نے سٹاف روم میں آ کر اساتذہ کو بھی درخواست کی۔ میں نے کمرے سے باہر نکل کر ان سے کہا میرا بیڈ کالج کے ہال میں ڈال دیں میں وہاں چھپ کر خون کا عطیہ دوں گا۔میں نہیں چاہتا کہ اس نیکی کا حال کسی دوسرے کو معلوم ہو۔میں نے ہال میں بلڈ دے دیا تو انھوں نے کہا یہ وہ نیکی نہیں کہ اپنے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔یہ تو ایسی نیکی ہے کہ آگاہی کے لئے جس کا چرچا ہونا چاہئے۔آپ کے شاگرد آپ سے متاثر ہو
کر خون دیں گے۔ان کی بات ٹھاک سے میرے دل پر لگی۔سو میں نے اس کے بعد اپنے خون دینے کا احوال دوسروں سے شیئر کرنا شروع کیا اور خون دے کر فیس بک پرڈال دیتا ہوں۔تاکہ دوسروں کورغبت ہو۔وہ شخصیت خونِ جگر فاؤنڈیشن کے سربراہ اسلم مروت تھے۔مجھے فخر حاصل ہے کہ میری وجہ سے خون دینے کی آگاہی مہم میں اضافہ ہوا ہے۔میرے دوست شاگرد کافی تعداد میں خون دے کر مجھ سے کہہ دیتے ہیں کہ آپ کو دیکھ کر ہم نے بھی خون دیا ہے۔بلکہ میری اہلیہ اور میرا فرزند علی احمد جو سپیریئر سائنس کالج میں انگریزی کا لیکچرا ر ہے اس نے بھی والدہ کی طرح پچاس مرتبہ خون کاعطیہ دیا ہوا ہے۔بیگم کے بھائی انور کا گروپ او نیگٹیو ہے مگر اس نے بھی لگ بھگ ستر مرتبہ خون کا عطیہ دے رکھا ہے۔فضلِ امین میرے فرسٹ کزن ہیں جو محکمہ معدنیات میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہیں انھوں نے بھی پچاس بار یہ خدمت سرانجام دی ہے۔ میرے بہت پیارے دوست ندیم انجم انصاری پشاور گورنمنٹ کالج آف مینیجمنٹ سائنسز میں ایسو سی ایٹ پروفیسر ہیں۔ انھوں نے 70سے زیادہ مرتبہ خون کا عطیہ دیا ہے۔اسی طرح اوربہت سے پیارے ہیں جنھوں نے کافی سے زیادہ مرتبہ یہی خدمت انجام دی ہے۔خود ڈاکٹر مرجان اور ان کے عملے نے بھی جو دعا ویلفیئر کے انچارج ہیں کافی سے زیادہ مرتبہ خون کے عطیات دے رکھے ہیں۔اسی طرح باقی تنظمیوں میں بھی عملے والے خود بھی خون دیتے رہتے ہیں۔ میں جب جب خون دے رہاہوتا ہوں تو اپنی عادت کے مطابق ساتھ ساتھ سوالات بھی کرتارہتاہوں۔مگر افسوس پہنچتا ہے کہ خون دینے والے بہت کم ہیں۔ اگر کالج سکول سے مل جائے تو ملے وگرنہ یہ تنظیموں والے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔