میرا پشاور 

میرا پشاور پچاس سا لوں میں اتنا تبدیل ہو چکا ہے کہ اب مجھ سے پہچا نا نہیں جا تا آج میں جی ٹی روڈ پر جنا ح پار ک سے چند قدم آگے آکر اُس مقام پر کھڑا ہوں جہاں فردوس سینما ہو اکر تا تھا جس کانام بعد میں بدل دیا گیا۔اب سینما کو مسما ر کر کے اس جگہ بہت بڑا پلا زا بنا یا گیا ہے یہ وہ مقا م ہے جہاں دیوار وں پر فلموں میں لڑا ئی ما ر کٹا ئی کی تصاویر ایسی آویزان یا چسپاں ہو تی تھیں کہ دور دور سے نظر آتی تھیں۔ کسی زمانے میں اخبارات میں سب سے نما یاں اشتہار ات فلموں کے ہوتے تھے۔ اخبار کے دفتر میں سب سے دلچسپ کمر ہ وہ ہو تا تھا جس میں کا تبوں کو بٹھا یا جا تا تھا اس کمرے میں دیوار کے ساتھ تختے لگا کر فرشی نشست سجا ئی جاتی تھی ان تختوں کے ساتھ ٹیک لگا کر کا تب حضرات بیٹھتے اور اخباری مواد کی کتا بت کر تے تھے، ہر ایک کے ہاتھ میں کتابت کا تختہ ہو تا تھا سامنے دوات اور ہاتھ میں قلم دیدنی ہو تا تھا کتابت میں غلطی ہو جاتی تو لفظ، حرف یا سطر کی اصلا ح کا کوئی راستہ نہیں تھا، پورے کا غذ کو دوبارہ لکھنا پڑتا تھا۔

 آج کتا بت کی جگہ کمپو زنگ آگئی ہے اور کا تب کی جگہ کمپیو ٹر نے لے لی ہے کمرہ وہی ہے اس میں کمپیو ٹر رکھے ہوئے ہیں کہیں بھول چوک سے غلطی سرزد ہو جا ئے تو لفظ، حرف اور سطر کی اصلاح پلک جھپکنے میں ہو جا تی ہے۔ ان دنوں اخباری دنیا میں ایک مشہور نعرہ ہو ا کر تا تھا  کنکرنٹ لسٹ کو ختم کرو“ یہ وفاق کے اختیارات صو بوں کو منتقل کر نے کا مطا لبہ تھا اخبارات کے کو چے سے با ہر آکر ہم شہر پر ایک نظر دوڑاتے تو سارا شہر غریب دوست، مزدور دوست اور طالب دوست تھا طالب مسجدوں میں پڑھنے والا طالب علم تھا، جن کو گھروں سے راشن ملتا تھا ایک لیٹر پٹرول دو روپے کا تھا، ایک روپے میں اچھا معیاری کھا نا ملتا تھا، سوروپیہ جیب میں ہو تو مہینہ بھر کے ٹرانسپورٹ اور کھا نے پینے کے لئے کا فی ہو تا تھا یہ میرا پشاور تھا۔

یہاں خیبر کیفی میں شہر اور صدر کے دانشور آکر مختلف میزوں کے گرد حلقہ بنا تے تھے اس حلقے میں قاضی سرور کیساتھ دو چار ریٹائر ڈ بیورو کریٹ بیٹھے ہیں سامنے والے حلقے میں رضا ہمدا نی اور طٰہٰ خان کے ہمراہ شاعروں کا جھرمٹ نظر آتا ہے یہ میرا پشاور تھا۔یہ تو میں نے صرف چند مقامات اور  کچھ مخصوص یادوں کا تذکرہ کیا، ایسی ان گنت یادیں ہیں جو اب ماضی کا حصہ بن گئی ہیں، تاہم یہ زندگی کا چلن  جو جاری و ساری ہے اور زندگی کا پہیہ کہ گھومتا رہتا ہے۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ وقت جہاں اپنے ساتھ جاتے ہوئے بہت کچھ لے جاتا ہے وہاں کچھ نئی چیزیں بھی دے جاتا ہے یہ الگ بات ہے کہ جو چیزیں نئی ہوتی ہیں وہ بھی جلد پرانی ہوجاتی ہیں،یوں یہ سلسلہ جاری ہے۔