مگر یہ کہ چولھوں میں جو رہی سہی سوئی گیس تھی وہ بھی غائب ہو گئی ہے۔ہر چھوٹے سے گھر میں اگر تین چار افراد ہیں اور کھانا پکانا بھی اتنا نہیں تو ان کے ہاں مہینہ وار دو ہزار کی گیس سیلنڈر میں بھرواکر کچن کا کام کیا جا سکتا ہے۔مگر وہ غریب غرباء جن کے گھروں میں افرادِ خانہ زیادہ ہوں ان کا گیس کا خرچہ زیادہ ہے۔پھرجتنا جتنا پکنے پکانے کا کام زیادہ ہو گا اتنا ہی ان کا تیس روز کا خرچ زیادہ ہو جائے گا۔ گرمی میں جب گیس نہ تھی تو سردیوں کے اس موسم میں گیس کی فراہمی کاکوئی کیا تصور کر سکتا ہے کہ چولھے میں سوئی گیس کی فراہمی کتنی ہوگی۔جن علاقوں میں گیس کی فراوانی ہے اب تو وہاں بھی گیس نے چولھوں پر الٹا برف ہی جما دی ہے۔”ہمارے گھرمیں تو چولھوں پہ برف جمتی ہے۔میرے پڑوس میں لکڑی کا ٹال اب بھی ہے“۔مگر کوئی خاشاک بھی کتنی جلائے گا۔یہ خس و خاشاک اور لکڑیاں وغیرہ بھی مفت میں تونہیں جلتے ان پہ بھی خرچہ آتا ہے۔کہیں اڑتی ہوئی سنی ہے کہ ملک میں گیس کامعاملہ ختم کر دیا جائے گا اور گھروں میں سلینڈر جلا کریں گے۔چلو شاید اس پر کام ہو رہا ہوگا مگر تب تک تو اس مسئلے کا حل نکالنے کی ناکام ہی سہی مگر کوشش تو کی جائے۔
گیس کا سسٹم ختم ہو گا یہ بات سمجھ میں آتے آتے آ جائے گی۔ مگر کیا بجلی بھی ہر گھر کی اپنی پیداوار کے طور پر بنائی جائے گی۔ کیا گلی کی نالیوں کے بہتے پانی پر چھوٹے کھلونا ڈیم بنیں گے۔کیا ہر گھر میں جنریٹر چلایا جائے گا اور خود کار یوپی ایس بنائے جائیں گے جو بجلی از خود بنائیں گے اور پورے گھرکو سپلائی ہوگی۔خداجانے توانائی کا یہ بحران آگے کتنا عرصہ اور جاری رہے گا۔ کیونکہ تیس سال پہلے یہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ شروع ہوئی تھی۔اس وقت آدھ گھنٹے کو بجلی کا جاناشہریوں کو روزانہ حیران کئے دیتا تھا کہ آخر یہ ہو کیا رہا ہے۔ان شہریوں بیچاروں کو جن میں زیادہ تر تہہ خاک جاکر سوگئے کیا معلوم تھا کہ بجلی نے آئندہ تیس سال تک 2022ء میں بھی نہیں آنا بلکہ یہ آدھ گھنٹہ کئی کئی گھنٹوں میں بدل جائے گا اور بجلی غائب غلان ہو جائے گی۔ اب جانے آئندہ اس میں کیا رد وبدل ہوگا۔صورتِ حال یونہی رہے گی یا اس میں کوئی بہتری کی امید ہے۔
اب بھلا گرمیوں میں تو بجلی کاجانا ٹھہر جائے تو بات دماغ کو لگتی ہے۔کیونکہ گرمامیں بجلی کی چال ڈھال میں کجی آ جاتی ہے مگر اب تو بجلی کاچال چلن بھی بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔اب سردی کا آغاز ابتدا کے طور پر شروع ہے۔مگر اس ٹھنڈے موسم میں بجلی کی ارسال و ترسیل میں وہی شیڈول ہے۔ اس سال کا اور پچھلے سالوں کا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ بجلی کا معاملہ جیسے تھا ویسے ہی رہے گا اور سوئی گیس نے تو اس حد تک کم یاب ہونا ہے کہ نایاب ہو جائے گی۔ سلینڈروں تک بات پورے طور پر آ کر ختم ہوجائے گی۔لکڑیاں جلیں گی جلائی جائیں گی قریب کے درختوں کاکاٹا جائے گا ان کی لکڑیاں کہیں تو سلیپر بن کر عمارتی لکڑی کے طور پر کام آئیں گے اور باقی کی لکڑی کی بربادی سردی میں ہاتھ تاپنے کو کام آئے گی۔
پھر جو گرانی کی لہر آئی ہوئی ہے اس کی زد میں لکڑی نے مزید اس چکی میں پس کر اپنے جلانے والوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دینا ہے۔بجلی کے ہیٹر بھی جلائیں جائیں گے تو وہی رکھ رکھاؤ والے صاحبِ حیثیت حضرات لگائیں گے۔پھر وہ بھی ہیٹر کتنا لگائیں گے۔بجلی ہوتو ہیٹر بھی لگے گا ورنہ وہ بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے صندلی میں چھپ کر بیٹھے ہوں گے۔ابھی سے گیس غائب ہونا شروع ہو گئی ہے اور سردی کے مکمل طور پر چھا جانے سے گیس جنسِ نایاب کی طرح بکاؤلی کا پھول بن جائے گی۔ جس کو ڈھونڈنے کے لئے ہمارے دودھ کے مجنوں یہ شہزادے اس کو پہاڑوں میں تلاش کر کے ناکام لوٹیں گے۔