اس وقت ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے مقابلے جاری ہیں اور خاص کر پاکستان میں جہاں کرکٹ کے کھیل کو جنون کا درجہ حاصل ہے،اس ٹورنامنٹ کے حوالے سے بھرپور جوش و خروش کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ان عالمی کرکٹ مقابلوں میں ٹیمو ں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ٹی20 ورلڈکپ کے سپر 12 میں 6، 6 ٹیموں کے 2 گروپ بنائے گئے ہیں۔ گروپ 1 میں موجودہ ٹی20 چیمپیئن آسٹریلیا، موجودہ ون ڈے چیمپیئن انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور افغانستان کی ٹیمیں شامل ہیں جبکہ کوالیفائنگ راؤنڈ مکمل ہونے کے بعد معلوم ہوگا کہ اس گروپ میں بقیہ 2 ٹیمیں کون ہوں گی۔اسی طرح گروپ 2 میں پاکستان اور بھارت کے ساتھ جنوبی افریقہ اور بنگلہ دیش شامل ہیں جبکہ کوالیفائنگ راؤنڈ مکمل ہونے کے بعد اس گروپ میں بھی 2 مزید ٹیموں کا اضافہ ہوگا۔اگر دونوں گروپوں کا سرسری سا موازنہ کیا جائے تو گروپ 1 میں سیمی فائنل پوزیشن کے لئے گھمسان کے معرکوں کا امکان زیادہ ہے۔
آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور سری لنکا کی ٹیمیں گروپ اے ٹاپ کرنے کی صورت میں سیمی فائنل پوزیشن کے لیے لڑ رہی ہوں گی تو افغانستان کی ٹیم ان میں سے کسی کو بھی اپ سیٹ کرتے ہوئے سیمی فائنل پوزیشن کی دوڑ سے باہر کرسکتی ہے۔سب سے پہلے بات کرتے ہیں میزبان آسٹریلیا کی۔ آسٹریلیا کی ٹیم ٹی20 کرکٹ کو کم ہی سنجیدہ لیتی دکھائی دی ہے لیکن جب یہ سنجیدہ ہوجائے تو ورلڈکپ ہی جیت جاتی ہے۔آسٹریلیا کی ٹی20 فارم اس وقت ملی جلی سی ہے، اس نے ویسٹ انڈیز کو سیریز میں شکست تو دی لیکن بھارت اور انگلینڈ کے خلاف شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ ٹورنامنٹ شروع ہوتے ہی آسٹریلیا کے کھلاڑی فارم پکڑ لیتے ہیں، پھر ٹورنامنٹ بھی آسٹریلیا میں ہے تو آسٹریلیا کی سیمی فائنل نشست تو کافی حد تک پکی لگ رہی ہے۔انہیں انگلینڈ کے خلاف اگرچہ سیریز میں شکست ہوئی لیکن دونوں ملکوں کے درمیان ٹی20 کرکٹ میں برابر کا مقابلہ ہے جبکہ نیوزی لینڈ اور سری لنکا پر آسٹریلیا کو واضح برتری حاصل ہے۔ موجودہ فارم اور پرانے ریکارڈ دونوں سے آسٹریلیا کا سیمی فائنل کھیلنا کافی حد تک ممکن نظر آرہا ہے۔انگلینڈ کی ٹیم ون ڈے کرکٹ کی چیمپیئن ہے اور اس وقت سب سے جدید برینڈ کی کرکٹ کھیل رہی ہے۔
اگرچہ ایون مورگن کی اچانک ریٹائرمنٹ کے بعد انگلینڈ کے لیے ابتدائی نتائج کچھ اچھے نہیں رہے اور انہیں بھارت اور پھر جنوبی افریقہ کے خلاف شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن پہلے پاکستان کو پاکستان میں اور پھر آسٹریلیا کو آسٹریلیا میں شکست دے کر انگلینڈ نے ٹورنامنٹ سے پہلے فارم میں واپسی کا اعلان کردیا ہے۔ٹیم میں کپتان جوز بٹلر اور ٹیسٹ کپتان بین اسٹوکس کی واپسی ہوئی ہے، جس سے ٹیم مزید مضبوط ہوچکی ہے۔ اگرچہ جونی بیئرسٹو کی کمی انگلینڈ کو ضرور محسوس ہوگی لیکن پاکستان اور آسٹریلیا کے خلاف نوجوان لڑکوں کی جارحانہ بیٹنگ دیکھ کر لگتا ہے کہ نقصان زیادہ نہیں ہوگا۔ ہاں، بین سٹوکس کی موجودہ فارم انگلینڈ کے لیے پریشان کن ضرور ہوسکتی ہے لیکن اگر اسٹوکس بیٹنگ میں کچھ نہ بھی کرسکیں تو اپنی باؤلنگ اور شاندار فیلڈنگ سے ہی میچ کا نتیجہ بدل سکتے ہیں۔نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کا ریکارڈ اگرچہ آسٹریلیا اور انگلینڈ کے خلاف ٹی20 کرکٹ میں کچھ زیادہ اچھا نہیں لیکن نیوزی لینڈ کی ٹیم کو عالمی کپ کے سیمی فائنل میں پہنچنے کا گر ضرور آتا ہے۔ چاہے نیوزی لینڈ کی ٹیم ورلڈکپ کے لئے فیورٹ ہو یا نہ ہو، لیکن انہیں سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر رکھنا کافی مشکل رہا ہے۔
کپتان کین ولیمسن کی فارم اگرچہ نیوزی لینڈ کی ٹیم کے لیے پریشان کن ہوسکتی ہے لیکن ٹیم میں موجود نئے کھلاڑی مخالف ٹیم کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح اگر باؤلنگ کی بات کریں تو ٹرینٹ بولٹ اور ٹم ساؤتھی کے ساتھ نیوزی لینڈ کے سپنر ایک خطرناک باؤلنگ یونٹ لگ رہے ہیں۔اگرچہ سری لنکن ٹیم کوالیفائنگ راونڈ کھیل رہی ہے اور کل نیمیبیا کے خلاف اسے اپ سیٹ شکست بھی ہوئی، مگر اس کے باوجود یہ امکان موجود ہے کہ وہ سپر 12 میں کوالیفائی کرنے کے لیے کامیاب ہوجائے گی۔ایشیا کپ کی فاتح سری لنکا کی ٹیم نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل ہے لیکن ان نوجوانوں کو تجربہ کار لیگ سپنر ونیندو ہاسارنگا کا ساتھ بھی حاصل ہے۔ سری لنکا کی ٹیم اپنے دن پر کسی کو بھی حیران کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے لیکن اس کا اس گروپ سے سیمی فائنل میں پہنچنا کافی مشکل لگتا ہے۔گروپ 1 سے سیمی فائنل میں آسٹریلیا اور انگلینڈ کی رسائی کے امکانات کافی زیادہ ہیں اگرچہ نیوزی لینڈ کی ٹیم بھی حیران کرسکتی ہے۔گروپ 2 میں بھارت کی ٹیم اس وقت بھرپور فارم میں ہے۔
بھارتی ٹیم انگلینڈ کو انگلینڈ میں شکست دینے کے بعد آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کو اپنے گھر میں سیریز شکست سے دوچار کرچکی ہے۔ اگرچہ اس دوران ایشیا کپ میں بھارت کی فائنل تک رسائی نہ ہوسکی لیکن اس کے باوجود بھارت کے ورلڈکپ سیمی فائنل میں پہنچنے کے کافی امکانات ہیں۔بھارتی ٹیم کا ریکارڈ آسٹریلیا میں کافی بہتر ہے اور پاکستان اور جنوبی افریقہ کے خلاف بھارت کا ریکارڈ بھی اچھا ہے۔ اگرچہ پچھلے ایک سال میں پاکستانی ٹیم نے بھارتی ٹیم کو 3 میں سے 2 ٹی20 میچوں میں شکست دی ہے لیکن ورلڈکپ مقابلوں میں بھارت کا پلڑا بہت بھاری ہے۔ جسپریت بمرا کی غیر موجودگی بھارت کے لیے پریشان کن ضرور ہے لیکن بھارت کی مضبوط ترین بیٹنگ لائن اور عمدہ سپنر اس کمی کو پورا کرسکتے ہیں۔
پاکستانی ٹیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 2022 میں بھی 1990 کی دہائی کی کرکٹ کھیل رہی ہے اور یہ بات بہت حد تک درست بھی ہے۔ جہاں باقی ٹیمیں ٹی20 پاور پلے میں اوسطا 50 رنز بنا رہی ہیں وہیں پاکستانی ٹیم 42 رنز ہی بنا رہی ہے۔محمد رضوان اور بابر اعظم کی جوڑی ایک طرف تو ٹی20 کرکٹ میں ریکارڈ پر ریکارڈ توڑ رہی ہے مگر دوسری طرف دونوں ہی کھلاڑی پہلے 10 اوورز میں کوئی بھی رسک لینے سے گریزاں ہیں۔مڈل آرڈر کی بات کی جائے تو اسے موقع نہ ملے تو گلہ رہتا ہے کہ کیوں موقع نہ ملا اور مل جائے تو گلہ ہوتا ہے کہ نہ ملتا تو بہتر تھا۔ بابر اور رضوان ہر میچ میں 20 اوورز پورے کھیلنے کے ارادے سے کریز پر جاتے ہیں۔ کبھی ان ارادوں سے 200 کا ہدف بھی حاصل کرلیا جاتا ہے تو کبھی 170 کا ہدف بھی مشکل ہوجاتا ہے‘ قومی ٹیم میں اس حوالے سے جو مسائل موجود ہے ان کو بروقت حل کرنا ضروری ہے۔