فضل ربی کی یا د میں 

نمل یو نیورسٹی پشاور کیمپس میں بی ایس انگریزی کے فائنل سمسٹر کا طا لب علم فضل ربی سر طان کے مو ذی مرض کا شکار ہو کر 4ہفتوں کی بیماری کے بعد فا نی دنیا سے ابدی زند گی کے سفر پر روا نہ ہو ا تو انکے دوستوں کے ساتھ ماں باپ، بھا ئی بہنوں اور جا ننے والوں کو ایک بار پھر دنیا کی بے ثبا تی کا شدید احساس ہوا فضل ربی کی عمر 24سال تھی وہ بلند قدو قامت کا خو برو اور تنو مند نو جواں تھا۔ مالک حقیقی  نے انہیں سیرت اور صورت کی تمام تر خو بیوں سے کمال فیا ضی کے ساتھ نوازا تھا مجھے انکی جس ادا نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ ادا تھی کہ سر طان کی تشخیص ہو نے سے پہلے کم و بیش 16مہینے بخار اور کھا نسی کے ساتھ سستی اور کا ہلی میں مبتلا تھا لیکن سب سے کہتا تھا میں ٹھیک ہو ں مجھے کچھ نہیں ہوا۔ سرطان کی تشخیص ہو نے کے بعد 4ہفتے زندہ رہا، ان کے ما ں باپ ہسپتال آتے تو بستر پر اُٹھ کر سیدھا بیٹھ جا تا اور کہتا میں اے ون ہوں کوئی تکلیف نہیں اُس کا وجدان کہتا ہو گا کہ مو ت سر پر منڈلا رہی ہے مگر اپنی ماں کو تسلی دیتے ہوئے کہتا کہ میں تمہارے ساتھ ہی گاؤں جا ؤ نگا۔اُس نے اپنی مو ت سے 3گھنٹے پہلے آئی سی یو میں اپنے ما موں عبد الودود کو بتا یا کہ اس سال میرا آخری سمسٹر ختم ہو رہا ہے تمہاری بھی سردیوں کی لمبی چھٹیاں ہو نگی ہم دونوں ملکر یہ سردیاں گاؤں میں گزار ینگے بڑا لطف آئیگا دراصل وہ اپنے ما موں کو تسلی دے کر سلانا چا ہتا تھا اس کو اپنے سر ہا نے پر زحمت دینا  اُسے گوارا نہ تھا۔ فضل ربی مر حوم اپر چترال کے گاؤں پرواک میں استاد فضل کر یم کے ہاں 1998 میں پیدا ہوا۔ان کا دادا حا جی امو خت علی بھی استاد تھا ان کے ننھیال میں ما سٹر عبد الرزاق‘ پروفیسر عبدالما لک اور پر نسپل سمیع الدین بھی استاد ہیں۔، عبد الودود بھی استاد ہے، عبد الا کرم سول سروس کا آفیسر ہے ”ہمہ خا نہ آفتا ب“ کا مقولہ ان کے ننھیال اور ددھیال پر صادق آتا ہے فضل ربی  عادات اور اطوار کے اعتبار سے منفرد شخصیت کا ما لک تھا گرا ؤنڈ میں فٹ بال اور کرکٹ کھیلتے ہوئے سب کی تو جہ کا مر کز ہو تا‘مسجد میں آذان ہو تی تو وہ سب کا م چھوڑ کر نما ز کے لئے کمر بستہ ہو جا تا۔ اس وجہ سے وہ اپنے دادا کو سب سے زیا دہ محبوب تھا۔ سکول کالج اور یونیورسٹی میں اسا تذہ اور ہم عمر طلبہ کو کبھی ان سے کوئی شکا یت نہیں ہوئی۔چھوٹے بھا ئی فضل احد کو وہ دل و جا ن سے چا ہتا تھا اور بے تکلف دوست کی طرح بر تاؤ کا حقدار سمجھتا تھا۔عمو ماً دیکھنے میں آتا ہے کہ کا لج اور یو نیور سٹی میں پڑھنے والے نو جواں دیہا تی زند گی میں کاشت کار ی، گلہ با نی وغیرہ کے کا موں میں دلچسپی نہیں لیتے مگر فضل ربی کا رویہ ایسا نہ تھا وہ گھر آتا تو کاشتکاری کے کا موں میں سب سے زیادہ حصہ ڈالتا۔ مر ض المو ت سے ایک ہفتہ پہلے اُس نے گاؤں میں سیلا ب زدہ نہر کی بحالی میں باپ کی جگہ سارا دن مشقت والا کا م کیا، اگلے دن یونیورسٹی میں حا ضری دینے کے لئے پشاور روانہ ہوا۔ 9ستمبر 2022کو مر ض کی تشخیص ہوئی 9اکتو بر 2022کو صبح سویرے اُس نے جا ن عزیز مسکر اتے چہرے کے ساتھ جاں افرین کے سپر د کی‘ہر شام اس کی والدہ محترمہ ہسپتال آتی تو ماں سے بیٹھنے کو کہتا، ماں ہسپتال نہ آتی تو باپ سے پوچھتا ماں کیوں نہیں آئی‘اُسی شام ان کی ماں عبد الاکرم ماموں کے ہمراہ ہسپتال آئی تو بستر پر اُٹھ بیٹھا۔ماں کے ہا تھوں کو بو سہ دے کر کہا گھر جاؤ اپنا خیال رکھو میں با لکل ٹھیک ہو ں جس طرح ان کی زند گی قابل رشک تھی ان کی مو ت بھی قا بل رشک ثا بت ہوئی۔ رب کریم روز قیا مت انہیں والدین کے لئے وسیلہ بنا ئے فضل ربی کی جدا ئی نے دنیا کی بے وفا ئی کی ایک بار پھر یاد دلا ئی ہے۔