حالیہ سیلاب اور ان سے منسلک خبروں کو ملک میں جاری سیاسی گہماگہمیوں نے پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔ قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کے اعلان کیا ہے کہ پاکستان سیلاب متاثرین کی امداد و بحالی کی رفتار تیز کرنے کے لئے عنقریب ”ڈونرز کانفرنس“ کا انعقاد کرے گا۔ اطلاعات کے مطابق‘ پاکستان کے ترقیاتی شراکت دار ملک بھر میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تعین کرنے کے لئے ’پوسٹ ڈیزاسٹر نیڈز اسسمنٹ سروے‘ مکمل کر چکے ہیں۔ ملک میں سیلاب کے بعد کی صورتحال تشویشناک ہے اور سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مشکلات کم کرنے کیلئے ضرورت کوششوں اور ترجیحات پر نظرثانی کی ہے۔ وزیر منصوبہ بندی کے بقول ”سیلاب سے ہوئے نقصانات کے جائزے (سروے) کی تکمیل کی متوقع تاریخ چوبیس اکتوبر ہے جس کے بعد حکومت بحالی کے عمل کو فروغ دینے کے لئے ’فعال حکمت عملی‘ متعارف کرے گی اور اِس سلسلے میں جملہ تیاریاں کر لی گئی ہیں بلاشبہ اس سلسلے میں سٹیک ہولڈرز کا ’اِن پٹ‘ بہت اہمیت کا حامل ہوگا لیکن کوئی حکومت سے اپنے شراکت داروں پر بھروسہ کرنے کے بجائے قیادت کی توقع کرے گا۔ قدرتی آفات کے لئے ’فعال حکمت ِعملی‘ کا مطلب یہ ہونا چاہئے کہ حکومتی فیصلہ ساز اور متعلقہ محکمے‘ وزارتیں صورتحال کے ہاتھ سے نکل جانے سے پہلے ہی عملی کاروائی کرنے کے قابل ہو جائیں۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کی شدت کو دیکھتے ہوئے منتظر متاثرہ لوگوں کو ’ریلیف‘ فراہم کرنے کے لئے ٹھوس کوششیں شروع ہونی چاہئیں کیونکہ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔ وفاقی حکومت جس جائزے (سروے) کا انتظار کر رہی ہے یقینی طور پر وہ نقصانات کے پیمانے کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھنے اور جانچنے میں مدد دے گا لیکن جو کچھ زمین پر ہے اور سب کو نظر آ رہا ہے اور اِس کے لئے کسی جائزے کی ضرورت نہیں بلکہ فوری امدادی و بحالی کی کاروائیاں شروع ہونی چاہئیں۔ مثال کے طور پر سندھ کے مختلف (کم سے کم 10) اضلاع سے اطلاعات ہیں کہ وہاں کے وسیع علاقوں پر دو ماہ گزرنے کے بعد بھی کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہے اور زرعی معیشت و معاشرت زیرآب ہے۔ ہر خاص و عام جانتا ہے کہ بلوچستان اور سندھ کے کچھ اضلاع تو تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کر چکے ہیں اور اب وہاں سے پانی کی نکاسی حسب ضرورت تیزی سے نہیں ہو رہی کیونکہ نکاسیئ آب کے راستے بند ہیں۔ پانی کے اخراج کو آسان بنانے کی ضرورت ہے ایسا نہ ہو کہ زمین پانی میں ڈوب جائے اور اِس قدر دلدلی ہو جائے کہ پھر اِس پر زراعت ممکن ہی نہیں نہ رہے۔ بلوچستان اور سندھ پہلے ہی آبی ذخائر کی کمی اور نمکیات کے مسئلے کا شکار رہے ہیں۔ جب سیلاب کا پانی زمین میں زیادہ جذب ہوتا ہے اور اِسے ضرورت سے زیادہ سیراب کر رہا ہوتا ہے تو اِس سے زمین کی زرخیزی ختم ہو جاتی ہے اور اِس میں نمکیات کے اجزأ کا تناسب بڑھ جاتا ہے‘ جو سنگین مسئلہ ہے اور مستقبل کی فصلوں پر اِس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کو صرف آج کی تاریخ اور چند ہفتوں میں ہوئے نقصانات کے طور پر نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ اِس کے اثرات کئی گنا زیادہ ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے سیلاب سے متاثرہ کمیونٹیز کی مدد کے لئے ’بینظیرانکم سپورٹ پروگرام‘ کے تحت اب تک 70ارب روپے تقسیم کئے ہیں۔ اس کے باوجود‘ کئی ہفتوں سے لاکھوں لوگ بے گھر اور بے یارومددگار ہیں اور اُن کے پاس اپنی زندگیاں دوبارہ شروع کرنے کے لئے کوئی آمدنی کا ذریعہ بھی نہیں ہے۔ ایک خاندان کب تک اس امداد کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے؟ گھر والے اس رقم سے کچھ ضروری چیزیں بھی نہیں خرید سکتے۔ یہی بات بیج کی تقسیم پر بھی لاگو ہوتی ہے جس کا زیادہ فائدہ نہیں ہوگا جب تک کہ زمین خشک اور قابل کاشت نہ ہو۔ اس لئے حکومت کو اپنی ترجیحات درست کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کسانوں کی مدد کے لئے تقریباً دس ارب روپے مالیت کے گندم کے بیج کی تقسیم کا منصوبہ بنا رہی ہے لیکن اس کے لئے مختلف مراحل میں ضیاع اور غلط استعمال سے بچنے کے لئے احتیاط سے تقسیم کی ضرورت ہے۔