نوٹس خلاصے اور گائیڈیں 

نصف صدی ہونے آئی ہے۔ہمارا تعلیمی نظام درست نہیں ہو پایا۔ پھر یہ تو سب آنکھوں دیکھا ہے۔بلکہ یہ کالم لکھنے والا خود اس نظام کا حصہ ہے۔ماضی میں بحیثیت طالب علم بھی اور پھر کالج میں استاد بن کر بھی دیکھا۔جو مخلص اساتذہ ہیں وہ اس سسٹم سے دل گیر ہیں۔ وہ خود تو ٹھیک ٹھاک پڑھے لکھے ہیں مگر آگے پڑھنے والے نہیں ہیں۔ جو سیکھنے میں سنجیدہ ہوں ان کی تعداد ایک فی صد بھی نہیں۔سب رٹا ماری ہے۔ جس سے یہ بہت اچھے نمبر لیتے ہیں۔ پھر جو اپنی محنت اور قابلیت سے امتحان پاس کرتے ہیں وہ اگرچہ نمبر کم لیتے ہیں مگر کہیں کسی موقع پر مقابلے کے امتحانات میں انٹرویو کے میدان میں زیادہ نمبروں والوں سے آگے نکل جاتے ہیں۔لیکن المیہ ہے کہ عام طور سے زیادہ نمبرلینے والوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔خواہ اس طالب علم نے یہ زیادہ نمبر جس طریقے سے بھی حاصل کئے ہوں۔ نقل سفارش اور جانے کیا کیا۔اس میدان میں بہت سے اندھیرے ہیں جو دائرہ در دائرہ پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ ایک الگ دنیا ہے۔75سال گزر گئے مگر  ابھی تک ہم اپنی منز ل تک نہیں پہنچے۔ابھی تک ہم تجربات کی دنیا سے گزر رہے ہیں۔ قوتِ فیصلہ ہم میں رہی نہیں۔ ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہوجائے۔ واضح نصب العین کی نشاندہی بھی تو ابھی تک ہم کر نہیں پائے کہ ہم نے آخر کرنا کیا ہے۔بس ہر سال مکھی پہ مکھی مارنا ہمارا کام ہے۔ٹائم پاس کرنا ہے یہ سال گزر جائے تو اگلے سال پھر دیکھ لیں گے۔ابھی جانے دو ابھی وقت نہیں ہے۔ تعلیم کے میدان میں کبھی ایک پروگرام متعارف کرواتے ہیں اور کبھی دوسرا۔پھر اگلے کو نئے سرے سے کینسل کر کے پچھلے کو فروغ دینا شروع کر دیتے ہیں۔تعلیم کے معاملے میں ترقی یافتہ اقوام کی نقالی میں ہم بہت مشہور ہیں۔مگر نقل کے لئے عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ باہر کے پروگرامات اس لئے کامیاب ہیں کہ وہ ایک کامیاب قوم ہیں اور انھوں نے اپنے کالج یونیورسٹیاں برسہا برس پہلے ایک پروگرام کے تحت تشکیل دے کر اس کام سے فراغت حاصل کر لی ہے۔وہ اب چاند سے آگے مریخ پرقدم رکھنے کی تیاری کر رہے ہیں۔پچاس سال پہلے بھی ہم کالجوں سکولوں یونیورسٹیوں میں نوٹس کی بیساکھیوں پر چلتے تھے او رآج بھی ہم کالجوں میں نوٹس کا سہارا تلاشتے ہیں۔ میں جب اسی کالج میں سٹوڈنٹ کی کرسی پر بیٹھ کرتعلیم حاصل کرتا تھا تواس وقت بھی چار دہائیوں قبل ہم نوٹس کی تلاش میں رہتے میں رہتے تھے۔ اساتذہ سے نوٹس مانگتے تھے بازاروں میں گائیڈیں مل جاتی تھیں۔ بس نوٹس اور شارٹ کٹ اور سال بھر میں چار بار پڑھائی جاسکنے والی کتاب کو داخلہ کے بعد شروع ہونے والی کلاس میں صرف ایک بارپڑھاجاتا ہے۔ دوسری بار نہ توطالب علم ہی پڑھنا چاہتا ہے او رنہ استاد بھی یہ کتاب دوبارہ پڑھانے سے شوق رکھتا ہے۔بلکہ بعض استاد کورس شروع ہونے کے دو ماہ بعد سٹاف روم میں اونچی آواز میں فرمانا شروع کر دیتے ہیں کہ میں نے کورس ختم کرلیا ہے حالانکہ چھ ماہ اور ابھی باقی ہوتے ہیں۔