صوبے کے تمام طلباء کے لئے یکساں نصاب اور یونیفارم کاخواب ابھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔یا درہے کہ خیبرپختونخو امیں کسی زمانے میں ملیشیا کا یونیفارم رائج تھا۔محکمہ ثانوی وابتدائی تعلیم کے ذرائع کے مطابق یہ یونیفارم پچاس کی دہائی میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ خان عبد القیوم خان نے متعارف کرایا تھا جس کے ساتھ ایک مخصوص سیاہ یا نیلے رنگ کی ٹوپی جس پر سرخ رنگ کا چاند تارہ بنے ہوتے تھے پہننا اس وقت کے سکول یونیفارم کا لازمی حصہ تھا۔ملیشیا چونکہ ان دنوں سستا ترین کپڑا تھا اور اسے امیر وں کے ساتھ ساتھ غریب بھی باآسانی ایفورڈ کرسکتے تھے نیز اس کی مخصوص رنگت کی وجہ سے چونکہ یہ جلدی میلا بھی نہیں ہوتا تھا اور پرائمری کے بچوں کے لئے اسے صاف رکھنا چونکہ کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تھا اس لئے گزشتہ ساٹھ ستر سالوں میں کبھی بھی کسی کو ا س یونیفارم پر کبھی کوئی بڑ ااعتراض نہیں ہوا۔البتہ بعض مواقع پر بعض کلاسز مثلاً گیارہویں اور بارہویں جماعتوں کے لئے اس میں سفید شلوار قمیض کی صورت میں اصلاحات کی کوششیں ہوتی رہیں لیکن بحیثیت مجموعی اسے کبھی بھی کسی نے بڑے پیمانے پر تبدیل نہیں کیا۔ ملیشیا یونیفارم کی ایک اور خوبی یونیفارم کے مقصد کی آبیاری کرتے ہوئے ایک سکول میں ایک چھت تلے امیر وغریب کے طبقاتی فرق کومٹانا تھا جس میں یہ یونیفارم کافی حد تک کامیاب نظر آتا تھا۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ صوبائی حکومت نے سرکاری سکولوں کے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں کے ہم پلہ بنانے کے لئے ان کے یونیفارم میں تبدیلی کرتے ہوئے روایتی شلوار قمیض کوختم کرکے اس کی جگہ گرے پینٹ اور بلیو شرٹ کو بطور یونیفارم متعارف کرایا ہے جس کا سب سے بڑ انقصان تو یہی سامنے آیا ہے کہ وہ بچے جنہیں اپنی روزمرہ زندگی میں پینٹ شرٹ کالباس ایک تو مہنگا ہونے کی وجہ سے میسر نہیں ہے اور ثانیاً ہمارے دیہی علاقوں حتیٰ کہ بعض شہری علاقوں میں بھی چونکہ غریب بچوں کے لئے پینٹ شرٹ ایفورڈ کرنا مشکل ہے،اس لئے ہمارے بچوں نے بالخصوص دوردراز کے دیہاتی علاقوں میں اس تبدیلی کو دل سے قبول نہیں کیا ہے۔والدین اور خو دطلباء کی جانب سے اس یونیفارم پرایک اور بڑ ااعتراض اس یونیفارم کوصاف رکھنے میں درپیش مشکلات ہیں یہ یونیفارم ایک دن ہی میں میلاہوجاتا ہے جس کے لئے غریب والدین خاص کر وہ والدین جوکثیر العیال ہیں کے لئے اپنے بچوں کے لئے تین تین چارچار جوڑوں کا بندوبست کرنا مشکل ہوجاتاہے جب کہ اس کے برعکس ملیشیا کا یونیفارم چار پانچ دن باآسانی نکال لیتاتھا۔
اس نئے متعارف کردہ پینٹ شرٹ یونیفارم کاایک اور منفی پہلو اسے محض طلباء کے لئے ہی لازمی کیاجانا ہے۔اگر حکومت نے بچوں کو ماڈرن بنانے کے زعم میں ان کا یونیفارم شلوار قمیض سے پینٹ شرٹ کردیاہے تو پھر یہ فیصلہ اساتذہ کرام کے ڈریس کوڈ پربھی منطبق ہوناچاہئے جو بچوں کیلئے ہر لحاظ سے رول ماڈل ہوتے ہیں‘اسی طرح حکومت کے پرائیویٹ اور سرکاری تعلیمی اداروں کے نصاب کو ایک بنانے کے ا علان کا بھی اب تک کوئی خاطر خوا نتیجہ نہیں نکلا ہے‘اس طرح اس وقت خیبرپختونخوا میں بھی دیگر صوبوں کی طرح کئی نصابوں پر مشتمل درس وتدریس کاسلسلہ جاری ہے۔حالانکہ اصولاً ہمارے ہاں ایک ایسایکساں نصاب ہونا چاہئے جس کے نتیجے میں ہم ایک متواز ن قوم اور نسل تیارکرسکیں لیکن بدقسمتی سے ہم تاحال اس مقصد کے حصول سے کوسوں میل دور نظر آتے ہیں۔