پاکستان میں سماجی بدامنی‘ بڑھتی ہوئی جرائم کی شرح‘ ذہنی صحت کے مسائل اور یہاں تک کہ دہشت گردی کی سرگرمیوں کا درپردہ محرک ”بے روزگاری“ ہے۔ پاکستان اکنامک سروے 2021-22ء کے مطابق موجودہ بے روزگاری کی شرح 6.3فیصد ہے یعنی ہر 100میں سے 6 افراد بیروزگار ہیں۔ اِن حکومتی اعدادوشمار کے برعکس برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ ہر 100 میں سے چھ نہیں بلکہ ساٹھ افراد بیروزگار ہیں اور شاید حکومتی ادارہ ’صفر‘ لگانا ہی بھول گیا ہے۔ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل افراد کی بے روزگاری کی شرح قومی اوسط سے نسبتاً زیادہ ہے، جس میں آنے والے سالوں میں اضافہ متوقع ہے۔ بے روزگاری کی اس بلند شرح کی بنیادی وجوہات کا تعلق صنعت کے ڈھانچے اور ملازمتوں کی محدود تعداد سے ہے جو تجارتی ادارے گریجویٹس کو فراہم کر سکتے ہیں۔ ملازمتوں کی اتنی عام کمی کے علاوہ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل افراد کو عملی زندگی میں علوم کے اطلاق اور خاطرخواہ مہارت نہ ہونے کی وجہ سے ناتجربہ کاری کا بھی سامنا ہے۔
پاکستان کو اپنی سالانہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں مسلسل سات سے آٹھ فیصد شرح نمو کی ضرورت ہے‘ اگر یہ ہدف حاصل نہیں کیا جاتا تو موجودہ معاشی مسائل و بیروزگاری کی دلدل سے نکلنا ممکن نہیں ہوگا چونکہ جدت طرازی اور انٹرپرینیورشپ ترقی کے کلیدی محرکات و تصورات مبہم ہیں جبکہ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ملک کی توجہ جدت پر مبنی طور طریقوں بشمول تعلیم و تحقیق پر مرکوز ہونی چاہئے تاکہ عصری ترقی کی رفتار حاصل کی جا سکے اور پاکستان دیگر اقوام کی تعلیم و ترقی کا تماشائی یا محتاج نہ رہے۔ اِس حقیقی آزادی کے حصول کے لئے درس و تدریس کے روایتی عمل (بندوبست) کو حسب حال و ضرورت بہتر بنانا ہوگا تاکہ نہ صرف موجودہ ضرورت کے لئے بلکہ مستقبل کی ضروریات کے لئے بھی روزگار کے مواقع (ملازمتیں) پیدا کی جا سکیں۔ حکومت کو اس بات کا احساس ہے کہ یونیورسٹیوں اور صنعت کے درمیان روابط اس صلاحیت بڑھا سکتے ہیں اور اس وجہ سے اس طرح کے روابط کے قیام کی حوصلہ افزائی اور حمایت ہونی چاہئے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کاروباری سرگرمیوں کی ضرورت کو تسلیم کرتا ہے جس سے روزگار کے مواقع پیدا کرنے والے کاروباری سرگرمیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں کاروبار کے فروغ کے لئے ایچ ای سی نے بزنس انکیوبیشن سینٹرز قائم کئے ہیں اور اِن مراکز کے ذریعے یونیورسٹیوں کی مدد کی جا رہی ہے تاکہ وہ نوجوانوں کو نصابی کتب تک محدود رہنے کی بجائے عملی زندگی کے چیلنجوں اور ضروریات کے لئے اُن کی ذہن سازی کر سکیں۔ اب تک ایچ ای سی نے ملک بھر میں تیس سے زائد ’بزنس انکیوبیشن سینٹرز (بی آئی سی)‘ قائم کئے ہیں۔ مزید یہ کہ حکومت نے نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع کو بہتر بنانے کے لئے بھی مختلف پروگرام شروع کر رکھے ہیں جیسا کہ یوتھ انٹرپرینیورشپ سکیم وغیرہ۔ پاکستان کا ایک اہم اقتصادی شراکت دار ہونے کے ناطے یورپی یونین بھی تعلیمی علم کو انٹرپرینیورشپ میں تبدیلکرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اِس سلسلے میں ایک منصوبے (پراجیکٹ) کے ذریعے ”ٹرانسفارمنگ اکیڈمک نالج ٹو ڈیولپ انٹرپرینیورئل یونیورسٹیز ان پاکستان (ٹیک اپ)“ پر کام ہو رہا ہے۔
منصوبے کا کل حجم دس لاکھ پاؤنڈز ہے جس کے لئے منتخب یونیورسٹیوں میں کام ہو رہا ہے۔ اِس منصوبے کو دس ورک پیکجز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ کک آف اور خود تشخیص‘ سٹریٹجک منصوبہ بندی‘ لیبز کا قیام‘ کاروباری مہارتوں سے متعلق تربیت‘ تدریسی مواد کی تیاری و ترقی‘ پیشہ ورانہ کاروباری کوچنگ‘ تربیت اور تصدیق کرنے والے کاروباری کوچز (ٹرین دی ٹرینر)‘ ٹیک اپ نیٹ ورکس کی ترقی‘ اِن کا پھیلاؤ‘ مرئیت اور استحصال‘ معیار اور پراجیکٹ مینجمنٹ جیسے امور اِس میں شامل ہیں۔ اس پروجیکٹ کا مقصد کاروباری ثقافت کے شعبے میں پاکستانی طلبہ کی صلاحیتوں کو بڑھانا ہے‘ خاص طور پر مضبوط کاروباری ارادوں کے ساتھ طلبہ‘ محققین اور سابق طلبہ کی کوچنگ کے عمل کو بہتر بنا کر کاروباری صلاحیتوں کو فروغ دینے کی تجرباتی کوششیں ہو رہی ہیں تعلیمی (تدریسی) عمل کو تربیت سے قریب اور نجی کاروباری اداروں اور صنعتوں کو تعلیمی اداروں کی معاونت پر قائل کرنے کے لئے بھی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی کیونکہ تعلیم بنا تحقیق اور تحقیق بنا عملی استفادے بے سود (وقت اور وسائل کا ضیاع) ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں نئی نسل صلاحیت سے بھرپور ہے اور اگر کمی ہے تو صرف موقع دینے کی ہے اس لئے ضروری ہے کہ جدید دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے منصوبے سامنے لائیں جائیں جن کے ذریعے روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع سامنے آئیں اور نوجوانوں میں بے روزگاری اور مایوسی دونوں کا خاتمہ ہو۔