یہ مسئلہ تواپنی جگہ ہے 

شہر میں ایک اور شہر تعمیر ہو رہا ہے۔پھر اس شہر میں ایک اور شہر کی تخلیق ہے۔ عماراتی سلسلے دراز ہو رہے ہیں۔سڑکیں آہستہ سہی مگر بن رہی ہیں۔راستے جدا سہی مگر تعمیر و مرمت کہیں کہیں ہے۔پھر یہ جذبہ ئ تعمیر بہت دھیما ہے سو ہے تو سہی۔  دنیا جب سے بنی اب تک بن رہی ہے آئندہ بھی بنتی رہے گی۔ کیونکہ انسان کی سرشت میں تعمیر کا جذبہ ہے۔سیلاب میں جن لوگوں کے گھر برباد ہوئے اورامداد ان تک نہیں پہنچی۔ مگر انھوں نے اپنے گھر از سرِ نو جیسے تیسے سہی مگر ایسے ویسے کر کے بنانے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔ایک بچی اور ایک باپ اپنے گھر کی دیواریں اٹھانے میں مصروف ہیں۔ بچی اپنے والد کو گارا بنا کر دیتی ہے۔سیمنٹ بجری اور پانی ڈال کر مسالہ گھولتی ہے پھر ٹاٹکی میں تھوڑا تھوڑا ڈال کرباپ کو ننھے ہاتھوں اوپر کر کے دیتی جاتی ہے۔

باپ ان ننھے ہاتھوں سے مسالہ لے کر اس میں سے کرنڈی کے ساتھ ملبہ اٹھا کر دیوار کی اینٹوں پر تھوپتا جاتا ہے۔وہ گھر بنانے کی کوشش کرتا جا رہا ہے۔جیسے بھی سہی کچھ نہ کچھ تو تعمیر ہو جائے گا۔ جس کے اندر چار دیواری میں یہ گھرانہ اپنے جسم و جاں چھپا کر بیٹھ رہے گا۔شہر میں آبادی بھر پورہے اور گھروں کے دور تک جاتے ہوئے سلسلے ہیں جو دراز ہوتے جاتے ہیں جیسے شام کے وقت درختوں کے سائے لمبے ہو نا شروع ہوتے ہیں۔ گلی گلی میں مکانات بن رہے ہیں۔ کیونکہ سردیاں شروع ہوتے ہی موسم کی ٹھنڈک نے راج مزدوروں کا ساتھ دینا شروع کر دیا ہے۔گرمی کی دھوپ تو مزدوروں کے راستے کی بڑی رکاوٹ تھی۔اب دیواریں بن رہی ہیں اور گلی گلی سریے کی پختہ چھتیں ڈالی جا رہی ہیں۔ جس گلی میں کوئی گھر نیا بن رہاہو وہ اس گھر والوں کی تو خوش قسمتی ہے۔پھرایک چھوڑ خالی پلاٹوں پر اسی گلی کوچے میں دو گھر بن رہے ہوں۔ ایسے میں جو پہلے کے رہائشی وہا ں مقیم ہیں ان کی تو جان پر بن آتی ہے۔مگر اس کے باوجود ہم اس تعمیرکو داد ہی دیں گے کیونکہ یہ تعمیر ہے تخریب تو نہیں۔مگر اس تعمیر کے کرتا دھرتاؤں کاکمال یہ ہے کہ یہ دوسرے مستقل رہائشیوں کا خیال نہیں کرتے۔

وقت بے وقت شور شرابا۔ ٹریکٹر بھرے پُرے آرہے ہیں اینٹیں ایک دھڑا م کی سی آواز میں زمین پر گرا رہے ہیں۔جس کی وجہ سے گلی میں گزرنا محال ہو چکا ہے۔ ریت کے ڈھیر بھی اگر لگے ہیں تو وہ بھی اسی گلی میں بد نما داغ کی صورت برے لگتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ا س گلی کی بھلی چنگی زندگی غارت ہو جاتی ہے۔تعمیر کرنے والے اگر ایک ترتیب کے ساتھ تعمیر کا ڈول ڈالیں تو کسی مستقل رہائش کنندہ کو کوئی شکایت نہ ہو۔ یہ لوگ اپنی تعمیر  میں جلدی کے انداز میں راہ گزرنے والے سکول کے بچوں اور خواتین کا بھی خیال نہیں کرتے۔اگر اس گلی میں کسی کے ہاں گاڑی ہے تو وہ کڑھتا جلتا رہے گا اس وقت تک کہ یہ مکان کے سلسلے ریتوں اور اینٹوں کے ڈھیروں کے مراحل سے گزر نہ جائیں۔ پھر ان کو شکایت کرو تو یہ اس پر بہت برا مناتے ہیں۔پھر تعمیر ہونے والے مکان کی دیوار کے ساتھ کسی پڑھنے لکھنے والے کا گھرہو تو وہ تو گیا۔ 

کس کس کو کہے گا کہ شور شرابانہ کریں۔ اگر اینٹ اینٹ رکھ کر ساتھ موبائل پرگانے بھی سنے جا رہے ہوں تو تعمیر کرنے والے کی تیزی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ پھر اس قسم کے شور شرابے میں اس کا اپنے کام میں دل لگتا ہے۔مگر دوسری طرف کتابوں میں غرق ایک طالب علم کی پڑھائی کے لئے یہی شور و غل مانند ِزہر ہے۔ وہ ان لمحات میں کہ کتاب سے الفاظ لے کراپنے ذہن کے کاسے میں انڈیل رہا ہو اپنی سیکھنے کی صلاحیت کو زنگ آلود پاتا ہے۔اس کے دماغ میں جو آیاہوتا ہے وہ بھی غائب ہو جاتا ہے۔اگلے روز اگر اس کاپرچہ ہے تو اس کے لئے یہ ماحول زہرِ قاتل ہوگا۔خدا جانے نئے مکان کی تعمیر پر کتنے دن صرف ہوتے ہیں تین ماہ یا چار مہینے۔ان دنوں اگر ایک مکان مکمل ہوجائے تو اس طالب علم کے لئے اس سے اچھی کیا بات ہوگی۔مگراس کے بعد اگر دوسرا مکان شروع ہو تو پھر اس مطالعہ کرنے والے بنی نوعِ انسان کو چاہئے کہ وہ کہیں اور شفٹ ہو جائے‘ان میں سے کوئی طالب علم ایم فل کوئی پی ایچ ڈی اور کوئی ایم بی بی ایس کے آخری سال کا سٹوڈنٹ ہو تو وہ کہاں جائے۔ یہ مسئلہ تواپنی جگہ ہے جس کا کا فی الحال ہمارے معاشرے میں کوئی حل دریافت نہیں ہو سکا۔