موسم سرما کے قریب آنے کے ساتھ ہی گیس کی قلت اور فراہمی میں تعطل کے حوالے سے بات چیت ہو رہی ہے حکومت نے بالآخر روس سے تیل و گیس خریدنے پر غور شروع کر دیا ہے‘ روس سے توانائی درآمدات کم خرچ بھی ہے جس سے حکومت کو اضافی بچت کے ساتھ اس ممکنہ بحران سے بھی نمٹنے میں مدد ملے گی‘روس سے توانائی درآمدات ایک اچھا خیال ہے اور پاکستان سے قبل بھارت اپنی ضروریات کیلئے روس سے تجارت قائم کئے ہوئے ہیں‘ اگر حکومت روس سے توانائی درآمدات کر لیتی ہے تو سابق وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار سے ہٹائے جانے سے پہلے کے بعد سے موجودہ حکومت کا یہ سب سے نمایاں کام ہوگا۔اب جبکہ روس سے توانائی درآمدات کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے تو اِس سلسلے میں حائل تکنیکی مشکلات (رکاوٹوں) پر بھی غور ہونا چاہئے جن میں سرفہرست پاکستان کی آئل ریفائنریز کی پیداواری صلاحیت میں تبدیلی و بہتری ہے کہ وہ
روس سے حاصل کردہ ایک مختلف قسم کے ’خام تیل‘ کی تطہیر کر سکے۔روس یوکرین جنگ کے نتیجے میں روسی خام تیل کی فراہمی تعطل کا شکار ہے جس نے توانائی کی عالمی منڈیوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور پاکستان بھی اِس سے متاثرین ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان کا توانائی کا بل رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران نو فیصد سے زیادہ بڑھا ہے یعنی یہ 6.95 ارب ڈالر سے بڑھ کر 7.58 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے یقینا اِس صورتحال میں مزید وقت اور مالی وسائل ضائع کئے بغیر سستے روسی خام تیل کی درآمد سے فائدہ اٹھایا جانا چاہئے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا خیال ہے کہ پاکستان روسی خام تیل کو بھارت سے موازنہ یا بہتر شرائط پر خرید سکتا ہے لیکن پاکستان کو شاید بھارت کی طرح روس سے تجارت کا فائدہ حاصل نہ ہو‘ بھارت روس سے تیل بھارتی کرنسی میں خریدتا ہے اور اِسی طرح سعودی عرب بھی روس سے درآمدات ’سعودی ریال‘ ہی میں کرتے ہیں‘ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا روس پاکستان کیساتھ تجارت پاکستانی روپے میں کرے گا؟ اگر ایسا ہوا اور موجودہ حکومت روس کو اِس بات پر قائل کر سکی تو یہ ایک نہایت ہی خوش آئند پیش رفت ہو گی‘ جس سے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پرسے برقرار دباؤ کم ہوگا۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ روسی بینکوں کا سوفٹ (SWIFT) نامی عالمی
بینکاری سے اخراج ہے اور روس کے ساتھ تجارتی روابط پر امریکہ کی ممکنہ ناراضگی سے بھی خبردار رہنا چاہئے۔ پاکستان کی قیادت کو اپنے قومی مفاد کے مطابق فیصلہ کرنا چاہئے اور یہ کوشش بھی ہونی چاہئے کہ روس جس قیمت پر بھارت اور دیگر ممالک کو پٹرولیم مصنوعات فروخت کر رہا ہے پاکستان کو بھی اُسی قیمت اور لین دین کے طریقے پر فروخت کرے مغرب کیساتھ اقتصادی اور سفارتی تعلقات کو روایتی طور پر روس کے ساتھ کم درجے کی تجارت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس ذہنیت کو اب تبدیل کرنے کی ضرورت ہے‘ خاص طور پر اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ کس طرح پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی نے روس یوکرین جنگ کے بارے میں غیر جانبدارانہ مؤقف اختیار کیا وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو روس سے خام تیل کی خریداری سے پہلے اپنے آپشنز پر غور کرنا ہو گا لیکن یہ کام وہ جتنی جلدی کر یں اتنا ہی بہتر ہوگا کیونکہ موسم سرما ہر دن قریب آ رہا ہے۔