یہ سیکھنے سکھانے کا عمل ہے جوساری زندگی جاری رہتا ہے‘پھر روزانہ اس کا نیا انداز ہوتا ہے‘کوئی کیا سیکھ رہا ہے۔کوئی کیا سکھلا رہا ہے‘اس عمل کا کسی دوسرے کو پتا بھی نہیں ہوتا۔ کچھ جان کر سکھارہے ہوتے ہیں او رکچھ جان بوجھ کرسیکھناچاہتے ہیں‘بعض انجانے میں اپنے طرزِ عمل سے دوسرے کو اچھی بات سکھا دیتے ہیں۔مگر ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر جہاں اچھی باتیں ہیں وہاں یہ میڈیا پورا ٹریننگ سنٹر ہے‘فلمیں لگتی ہیں خواہ کسی بھی زبان میں ہوں۔ان فلموں سے بری ذہنیت والے اپنی سمجھ بوجھ حاصل کر تے ہیں‘چوری چکاری کرنا ہو کسی کو قتل کرناہو‘ راستے میں لوٹ مار ہو‘کسی پٹرول پمپ پر ڈکیتی کا ارادہ ہو‘ کسی شاپنگ مال پردھاوا بول کر وہاں سے نوٹوں کی ویل اپنے تھیلے میں ڈالنا ہوں۔ وہاں واردات کس طرح کرنا ہے‘پھربھاگنا کیسے ہے۔سب چیزوں کی تربیت ہمارے ہاں سی سی فوٹیج کیمرے کی وجہ سے عام ہو چکی ہے۔جہاں یہ کیمرہ ایک اچھی چیز ہے‘وہاں اسی سے ہمارے ہاں کے آلودہ ذہن اور خراب ہو رہے ہیں۔عجیب مخمصہ کی سی کیفیت ہے۔کیمرے لگے نہ ہوں تو واردات کا ڈر رہتا ہے اور کیمرے آن ہوں تو بھی واردات ہو سکتی ہے۔پھر اس منظر کو وٹس ایپ یا دوسرے ایپس پریوں نمایاں کر کے بتلایا جاتا ہے کہ بندہ نہ چاہتے بھی کچھ نہ کچھ سیکھ جاتا ہے۔اب گھرمیں گوبھی کے پھول کوچھری سے کاٹتے ہوئے خاتونِ خانہ اپنی انگلی پرزخم لگا ڈالے تو یہ اتفاق ہے۔کیونکہ اس نے یہ ہرگز نہیں چاہا کہ وہ اپنے آپ کو زخمی کر دے۔مگر باورچی خانہ کی یہ چھری اٹھا کر کسی اورکے پیٹ میں جان بوجھ کر گھونپ دی جائے تو یہی چھری بری چیز بن جاتی ہے۔یہاں تو پستول تک اگر لوگوں نے گھروں میں رکھے ہوئے ہیں تو اس کا مقصد کسی کوجان سے مارنانہیں‘بلکہ برے وقت پر کہ آپ پر کوئی حملہ آور ہو آپ اس اسلحہ سے اپنی جان کا دفاع کر
سکتے ہیں۔مگر ہمارے ہاں اس قسم کااسلحہ بھی تو دوسروں کو جان بوجھ کرقتل کرڈالنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ایسی نا اعتباری کی فضا قائم ہو چکی ہے کہ سائیڈ کی جیب سے موبائل بھی نکالو تو اگلاگھبرا جاتاہے۔ کیا کریں بعض چیزیں نہ چاہتے ہوئے واقع ہوجاتی ہیں۔یہی نا اعتباری ہے جو ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے۔ہر آدمی ڈرتا ہے کہ ابھی کہیں کونے کھدرے سے کوئی موٹر سائیکل سوا رنکل آئے گا اور کنپٹی پر پستول تان کر جو پاس ہے ہتھیا لے گا۔ اب تو رات کے اندھیرے کی ضرورت بھی نہیں رہی۔دن دیہاڑے یہ کام ہوتے ہیں۔جن علاقوں اور راہگزاروں کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اگلے نے اگلے سے موبائل اور نقدی چھین لی تو اس راہ سے احتیاط کر کے گزرتے ہیں۔کسی بھی جگہ کسی کو بھی لوٹا جاسکتا ہے۔سامنے سے تین بندے اندھیرے میں پیدل آ رہے تھے۔ یہاں سے وہ ایک پاؤں کھینچ کر چلنے والا شہری بائیک پر تھا۔انہوں نے اس کو روک لیا اور پیسے چھین لئے۔پستول کی کڑ کڑمیں تینوں نے اس کے سر پر اسلحہ تان لیا۔ الٹا رقم لے کر اس کو نیچے اتارااور بائیک پر تینوں آرام سے سوار ہو کر روانہ ہوگئے۔ کون تھے کون نہیں تھے‘کسی کو کچھ معلوم نہیں۔مگر ان لٹیروں کو اس بندے کا حال معلوم تھا اسی لئے اس کو نیچے اتارا کہ اس کے پاس شام کے بعد جب وہ دکان سے آتا ہے تو رقم موجود ہوتی ہے۔پھر یہ پاؤں سے معذوری
کی حالت میں ہے کہ دوڑنا اس کے لئے ممکن نہیں۔مگر اس کو حکم دیا کہ پیچھے مڑکر نہیں دیکھنا او ریہیں کھڑے رہو ہم دور سے بھی گولی چلانا جانتے ہیں۔اس بیچارے سے میں نے انٹرویو کیاتو اس نے کہا کاش ہمیں یہ اجازت مل جائے کہ اپنی حفاظت آپ کرو اور اس قسم کے ڈکیتوں سے خود ہی نمٹو تو دیکھتا ہوں یہ وارداتیں کیسے ہوتی ہیں۔چلو جو ہونا ہے وہ تو ہوتا ہے او رہر حال میں ہو کر رہتا ہے۔مگر یہ جو نرسری ہے جہاں سے کچے ذہنوں کے ینگ بچے سوشل میڈیاسے کسی واردات کی فوٹیج دیکھتے ہوئے بہت سیکھ لیتے ہیں اس کا کیاہوگا۔ یہاں تو باقاعدہ ٹریننگ سنٹر کھلے ہوئے ہیں۔یوٹیوب ہو یا کوئی اور ایپ ہو آج کل تو دھڑا دھڑ کسی پرفائر کرنے کے مناظرہیں۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ جیسے کوئی ویڈیو گیم ہے کہ سامنے کھڑے بندے کو پستول بندوق سونت کر ہلاک کر دیتے ہیں۔اس سے جن کونہیں آتا دنیا میں کوئی فن وہ بھی مارنے کا طریقہ او رلوٹ مار کی ٹریننگ حاصل کرلیتے ہیں۔اس کا کیا ہوگا۔یہ مسئلہ تو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔یہ واقعات کم نہیں ہورہے بلکہ روز کے حساب سے پچھلے دن کے مقابلے میں زیادہ ہورہے ہیں۔اس کا کوئی حل ہونا چاہئے۔پھر یہ ٹک ٹاک او رلائیکی اور جانے کون کون سی آفاتِ زمانہ ہیں جو لوگ موبائل میں دیکھتے رہتے ہیں۔ان سے بجائے اس کے کہ کوئی اچھا سبق سیکھیں۔اس قسم کی موویوں سے الٹے کام سیکھ لیتے ہیں۔پھر وہی اپنے عزیزوں دوستوں رشتہ داروں پر آزماتے ہیں۔کس کوکس طرح تنگ کیا جاسکتا ہے کس طرح دھوکا دے کر ستایا جا سکتا ہے۔بس ایک نرسری کھلی ہوئی ہے جہاں ناپختہ ذہن کے مالک بڑے اچھے طریق سے عیاری او رچالاکی دھوکہ بازی کے نت نئے طریقے آسانی سے سیکھ جاتے ہیں۔