پاکستان کو عالمی سطح پر اس ہفتے اچھی خبریں ملیں۔ اسے بالآخر ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکال دیا گیا ہے، اسے ایشیائی ترقیاتی بینک سے آئندہ ہفتے ڈیڑھ ارب ڈالر قرضہ مل جائے گا۔ آئی ایم ایف نے بھی کہا ہے پاکستان کو کمرشل قرضے کی مد میں 16 ارب 61 کروڑ ڈالر ملنے کا امکان ہے۔ اسے آئی ایم ایف کے علاوہ دیگر اداروں سے 14 ارب 39 کروڑ ڈالر ملیں گے جب کہ 2 ارب 16 کروڑ ڈالر کی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری اور اس کے ذمہ 12 ارب 83 کروڑ ڈالر کا قلیل مدتی قرضہ رول اوور ہونے کا امکان ہے۔پاکستان مزید برآں روس سے سستا تیل حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سلسلے میں سخت محنت رنگ لائی ہے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب امریکہ نے روس یوکرین جنگ کے تناظر میں سعودی عرب سے تقاضا کیا کہ وہ تیل کی پیداوار بڑھا دے تاکہ قیمتیں کم ہوجائیں تو سعودی عرب اور تیل پیدا کرنے والے ممالک نے الٹا تیل کی پیداوار کم کردی۔
امریکہ نے سعودی عرب اور دیگر اوپیک ممالک کے اس فیصلے پر سخت تنقید کی تو پاکستان نے سعودیوں پر امریکی غصے کو نظر انداز کرتے ہوئے سعودیہ کی اعلانیہ حمایت کردی کہ انہوں نے پیداوار کم کرکے اچھا کیا ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ سے بچنے اور عالمی اقتصادی استحکام یقینی بنانے کے بارے میں سعودی عرب کے خدشات کو سراہا اور کہا کہ پاکستان اس طرح کے معاملات پر بات چیت اور باہمی احترام پر مبنی تعمیری سوچ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور یہ کہ ہم سعودی عرب کے ساتھ اپنے طویل برادرانہ تعلقات کا اعادہ کرتے ہیں۔ایسے میں پاکستان جو امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کر رہا تھا اس نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ سٹریٹجک معاملات میں وہ امریکہ کہ ڈکٹیشن نہیں لے گا۔ سعودی عرب ممکنہ طور پر پاکستان کے محنت کشوں کو زیادہ مقدار میں ویزے اور پاکستان کو اُدھار تیل دے کر اس کی معاشی مشکلات کم کرنے میں مد دے سکتا ہے۔اس کے علاوہ امریکہ کی خواہش کے برعکس پاکستان نے اقوام متحدہ میں روس کے خلاف ووٹ نہیں دیا۔
پاکستان ساتھ ہی روس سے تیل خریدنے کی کوشش کررہا ہے اور وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا ہے کہ اگر بھارت روس سے سستا تیل خرید سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں خرید سکتا پاکستان کیلئے ایک اور خوش خبری یہ ہے کہ فرانس کا صدر سیلاب زدگان کی مدد کے لیے ڈونر کانفرنس کی میزبانی کرنے جار ہا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نومبر کے پہلے ہفتے میں چین جا رہے ہیں۔ اپنے دورے کے دوران وہ کئی اہم سمجھوتوں پر دستخط کریں گے۔ جن میں گوادر میں تین ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کا سعودی چین آئل ریفائنری مشترکہ منصوبہ، پانچ ارب ڈالر کا دس ہزار میگاواٹ کا شمسی توانائی منصوبہ، دس ارب ڈالر کی ایم ایل ون، تین ارب ڈالر کا 1320 میگاواٹ کا تھر کول منصوبہ۔ ڈھائی ارب ڈالر کا کوہالہ ہائیڈرو منصوبہ، ایک ارب ساتھ کروڑ ڈالر کا آزاد پتن منصوبہ اور سوا ارب ڈالر کا بجلی میٹر منصوبہ، گوادر کوئلہ منصوبہ کو تھر کوئلہ پر منتقل کرنا، حب گوادر نئی ٹرانسمیشن لائن کا پراجیکٹ، بابو سر ٹنل، کراچی حیدر آباد موٹر وے، سٹیل مل کی زمین پر انڈسٹریل منصوبہ، مانسہرہ مظفر آباد روڈ اور ساگو ژوب روڈ وغیرہ شامل ہیں۔
چین نے خود ایل این جی فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے جس پر دورہ چین میں بات ہو گی، دنیا میں ایل این جی کا سب سے بڑا گاہک اور سٹور کرنے والا ملک چین ہے جو یورپ کو بھی ایل این جی سپلائی کرتا ہے۔ایک خوش کن خبر یہ ہے کہ پاکستان چین اقتصادی راہ داری پر تیزی سے کام شروع ہوجائے گا اور اس میں امریکہ اور آئی ایم ایف کے خدشات دور کیے جا رہے ہیں۔سعودی انویسٹ منٹ فنڈ کا وفد پاکستان کے دورے پر آیا تھا اور اس کے دورے کے دوران پاکستان نے جرات کے ساتھ سعودی عرب کی کھلی حمایت کردی اور سعودی عرب کے ساتھ نئے پرانے معاملات درست ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم صاحب چین کے دورے سے واپس آجائیں گے تو اس کے بعد سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا پاکستان کا دورہ متوقع ہے۔فیٹف کی جناب سے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنا ایک اہم پیش رفت ہے۔ یہ فیصلہ متوقع تھا کیوں کہ پاکستان نے ان کی تمام شرائط پوری کردی تھیں اور فیٹف والے پاکستان کو شرائط پر سب سے زیادہ عمل کرنے والا ملک قرار دے چکے تھے۔