خودکشی خود کو قتل کرنیکا مہلک عمل ہے۔ یہ نہ تو فوری ردعمل ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسی بیماری یا مرض جو موت کا سبب بنتی ہے لیکن خودکشی کا متحرک ایک منفی رویہ ہوتا ہے جو انسان پر اثرانداز ہونے والے گردوپیش (معاشرے‘ دوستوں یا خاندان) کی طرف سے پیدا ہونے والے حالات کا نتیجہ ہوتا ہے اور مختلف عوامل مل کر اِس قدر دباؤ بناتے ہیں کہ زندگی کا اختتام اپنے ہاتھوں ہوجاتا ہے۔ انسانی دماغ کی یہ صلاحیت کہ مشکل حالات سے نکلنے کی راہ دکھاتا ہے درحقیقت خودکشی کرنے پر مجبور کرتا ہے۔اِس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ خودکشی کا تصور کسی مسئلے کے آغاز پر نہیں پیدا ہوتا بلکہ کچھ حاصل کرنے کی انتھک جدوجہد میں ناکامی کے بعد خودکشی کی کوشش کی جاتی ہے۔ باالفاظ دیگر جب کوئی انسان کسی خاص مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام یا نامراد ہوتا ہے تو پھر اُسے مزید زندہ رہنے کی لگن نہیں رہتی۔ وہ ناکامی کا سامنا کرنے کی ہمت کھو دیتا ہے‘ جس کی وجہ سے اُس کے لئے ذہنی صحت (مینٹل ہیلتھ) کے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور یہی آج کے نوجوانوں کو لاحق سب سے بڑا اور پراسرار مسئلہ (مرض) ہے جس کا علاج کی جملہ کوششیں خاطرخواہ کامیاب نہیں ہو رہیں۔
ہر سال دنیا میں 7 لاکھ سے زیادہ لوگ خودکشی کرتے ہیں۔ یہ آج کی نوجوان نسل میں موت کی چوتھی بڑی وجہ ہے۔ کچھ اندازوں کے مطابق دنیا میں خودکشی کی موجودہ شرح 9.17 فیصد ہے جس میں مردوں کا تناسب 12.58فیصد اور خواتین میں پائی جانے والی خودکشیوں کا رجحان 5.68فیصد ہے اُور جب ہم پاکستان کی بات کرتے ہیں تو خودکشی کی موجودہ شرح اگرچہ عالمی شرح سے کچھ کم ہے لیکن 8.90فیصد شرح قطعی معمولی نہیں۔ اِن میں خودکشی کرنے والے مرد 13.30فیصد اور خواتین 4.30فیصد ہوتی ہیں اُور یہ بات اپنی جگہ غور طلب ہے کہ پاکستان میں خودکشی کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق کم آمدنی رکھنے والے (غریب و متوسط) طبقات سے ہے‘ جو اِس بات کی عکاسی کر رہا ہے کہ کہیں نہ کہیں غربت‘ کہیں نہ کہیں وسائل کی غلط تقسیم اور کہیں نہ کہیں استحصال خودکشی کا باعث بن رہے ہیں۔ اگر صنفی لحاظ سے خودکشیوں پر نظر ڈالی جائے تو مرد اپنی ہم عصر خواتین کے مقابلے زیادہ انتہائی مایوسی کا شکار ہوتے ہیں۔ خواتین بھی اپنی زندگی میں زیادہ افسردہ نظر آتی ہیں لیکن وہ حالات سے تنگ آ کر خودکشی کا نہیں سوچتیں اور نہ ہی زیادہ تعداد میں خودکشی کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
خواتین کی قوت برداشت اگر مردوں سے زیادہ ہوتی تو دوسری طرف چونکہ وہ اپنے روزمرہ کے حالات و واقعات کسی نہ کسی کو سنا رہی ہوتی ہیں اِس لئے مردوں کی طرح اعصابی دباؤ محسوس نہیں کرتیں جبکہ مرد اپنے اندر ہی اندر دیمک کی طرح خود کو چاٹ کھاتا ہے۔ طبی مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ زیادہ دیر تناؤ میں رہنے کی وجہ سے اعصاب جواب دینے لگتے ہیں اُور ذہن خودکشی کی طرف مائل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں مردوں میں خودکشی کی موجودہ شرح خواتین سے کہیں گنا زیادہ ہے۔ پاکستان میں 13.30فیصد مرد اور خواتین 4.30فیصد خواتین خودکشی کرتی ہیں۔ خاندانی نظام اور سماجی سہارے کی وجہ سے خودکشی کے واقعات رونما نہیں ہوتے اور یہ پہلو بھی ذہن نشین رہنا چاہئے کہ خودکشی کرنے والے افراد کی زیادہ تر تعداد پندرہ سے چوبیس سال عمروں کے درمیان ہوتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس عمر کے افراد کو طالب علمی ہی کے زمانے میں اعصابی تناؤ جکڑ لیتا ہے۔
بنا خاندان رہنا‘ تعلیمی نتائج کا دباؤتناؤ‘ مالی وسائل نہ ہونے کا دباؤ، خواہشات‘ اعتماد و یقین کی کمی‘ خودغرض دوست یا گردوپیش میں تعاون نہ کرنے والے ساتھی انسانوں کی ذہنی حالت پر اثرانداز ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دوستوں کا انتخاب کرتے ہوئے ضرورت سے زیادہ احتیاط کرنی چاہئے۔ نوجوانوں کے لئے تمباکو نوشی‘ نشہ آور کسی بھی چیز کا استعمال اور تفریح طبع کے لئے انٹرنیٹ کا حد سے زیادہ استعمال بھی اعصابی تناؤ کا باعث بنتا ہے۔ پاکستان میں ہر ایک لاکھ اموات میں سے 89.5 اموات خودکشی کے باعث ہو رہی ہیں جبکہ 2016ء میں یہ شرح 3.1فیصد فی لاکھ تھی۔ پاکستان میں خودکشی قانوناً جرم ہے جس کے مرتکب فرد کو زندہ بچنے کی صورت قید و جرمانے کی سزائیں دی جا سکتی ہیں تاہم ضرورت اُن محرکات کی اصلاح ہے جن کے باعث آج کا نوجوان خود کو تنہا اور نااُمید محسوس کر رہا ہے۔ اِس سلسلے میں تعلیم و تربیت مکمل کرنے کے بعد ملازمت نہ ملنے سے بھی مایوسی پیدا ہوتی ہے اور بیروزگاری سے بڑھ کر شاید ہی کوئی دوسرا قابل ذکر تناؤ ایسا ہے جو پاکستانی معاشرے کی رگوں میں خطرے کی صورت پھیل رہا ہے۔