آدمی اگر کسی کے کام آئے تو اس سے اچھی محسوسات اور کون سی ہیں۔ یہ احساس کبھی اعلانیہ ہو اور کبھی خفیہ ہو مگر ہو تو ضرور۔ کیونکہ انسانیت دریا کے اِس پار ہو یا اُس پار مگر دکھی ہے۔ہمارے ہاں خیر خیرات کے جتنے ادارے اعلان کر کے کام کر رہے ہیں قابلِ تعریف ہیں اور جو ادارے تھوڑے چھپ چھپا کر مگر انسانیت کو نوازتے ہیں وہ بھی تعریف کے قابل ہیں۔پھر وہ اشخاص جو اندر اندر اپنے آپ میں کسی کی مدد اور امداد کے درپے رہتے ہیں وہ زیادہ قابلِ تحسین ہیں۔کیونکہ اپنے لئے جینا آسان ہے مگر اپنے حصے کی خوشیوں میں سے دوسروں کا حصہ کرنا بہت بڑھیا بات ہے۔وہ جو خوشیوں سے محروم ہیں۔وہ جن کو زندگی نے مہلت نہیں دی کہ وہ ہنس سکیں۔ ان کے چہروں پر بشاشت بکھیر دینا اور خوشیوں کے رنگ ان کے ہونٹوں کی نیلاہٹ میں گھول کر ان کے لب و رخسار کو زندگی کی سرخی سے بھر دینا ہی تو انسان کی پیدائش کا جواز ہے۔ہمارے ہاں لوگوں کو جو دکھ حاصل ہیں وہ شمار میں نہیں آ سکتے۔”ان دکھوں کا شمار کیا کرنا“۔”کس کو کس کے غم نے مارا یہ کہانی پھر سہی“۔
ہمارے ہاں جتنے ہسپتال ہو ں اتنے کم ہیں اور جتنے خیراتی اداے ہو ں وہ کم پڑ جائیں گے۔ جتنے ویلفیئر کے سنٹر ہوں وہ اتنے قلیل ہیں۔ کیونکہ انسان پیدا ئش کے ساتھ ہی قابلِ رحم ہے۔پھر ایشیا کے ممالک لیں۔ ان میں تو غربت بہت زیادہ ہے۔یہا ں کی محرومیاں بہت فراواں ہیں۔ اب تو موجودہ دنوں میں سیلاب نے وہ تباہی مچا دی ہے کہ فصلیں برباد ہو چکی ہیں۔پھر آنے والے دنوں کی فصلوں کے خراب ہونے کے امکانات کافی سے زیادہ ہیں۔پھلوں کے بادشاہ آم کی فصل بھی آنے والے سیزن میں خرا ب ہوگی۔ہمارا دیس جہاں کے آم دنیا بھر میں سپلائی کئے جاتے ہیں۔وہاں آموں کو اس بار وہ وقعت نہیں ملے گی جو پچھلے موسموں میں حاصل رہی ہے۔ دوسرے شہروں میں دسترخوان سجائے جاتے ہیں۔ دولت مند حضرات کے تعاون سے روزانہ شہر کی سڑک کی گرین بیلٹ پردوپہر کو دستر خوان بچھایا جاتا ہے۔ہر کس و ناکس بیٹھ کر کھانا کھا سکتاہے۔پھر ایک ہی شہر میں ایک ہی مقام پرنہیں مختلف جگہوں پر یہی مشق دہرائی جاتی ہے۔جہیز کا سامان مہیا کرنے کو بھی ادارے موجود ہیں اور راشن پانی مہیا کرنے کو بھی ادارے کام کر رہے ہیں۔
پشاو رکے بعض گلی محلوں میں تنظیمیں بنی ہوئی ہیں جو اپنے علاقے کے کمزور حال اور ناتواں ہمسایوں کو جانتی ہیں۔موقع بہ موقع ان کے گھر جا کر چپکے سے راشن دے آتی ہیں۔تاکہ کسی تیسرے کو معلوم بھی نہ ہونے پائے اورغریب غربا کا کام چل جائے اس سلسلے میں گلی محلوں کے دائرے سے نکل کر بہت سے ایسے نیک انسان ہیں جن کانام تحریرمیں لانا شاید ان کو ناگوار گزرے۔مگر وہ اپنے تئیں اس کوشش میں مصروف ہیں کہ کسی کو سلائی مشین دلوا دی اور کسی کے گھر میں آٹا ڈلوا دیا۔ایک نہیں درجنوں نیک فطرت لوگ ہیں۔ مگر اس کے باوجود انسانوں کے دکھ ختم نہیں ہوپاتے۔یہ بہت حسین احساس ہے کہ آپ کو معلوم ہو میں کسی کے کام آرہاہوں۔کام آنا ایک طرح سے تو نہیں۔ بہت سے شعبے ہیں جن میں سرکاری ادارے بھی کام کر رہے ہیں او رنجی ادارے بھی اس کام میں جتے ہوئے ہیں۔پھر شخصی طور پر الگ سے آدمیت کی خدمت ہو رہی ہیں۔مگر کھانا ہے یا کپڑالتا ہے ایک دن کی خدمت نہیں کہ دے دیا اور وہ ساری زندگی کے لئے وہ خوشحال ہو گئے۔
کھانا تو روز انہ دو مرتبہ ہے۔ایسے دکاندار بھی ہیں کہ جن کے پہلو میں نہر کنارے راج مزدور روز صبح صبح آکر بیٹھ جاتے ہیں۔کسی شہری کو ان میں سے کسی کی ضرورت ہوئی تووہ ان مزدوروں میں سے کسی کولے گیااور گھر یا بلڈنگ میں کام پرلگا گیا۔لیکن مزدور اگردوپہر تک یونہی بیٹھے رہ گئے توکباب ہوٹل والے ان مزدورں کو فی کس ایک بندہ کاکھانا ضرور مہیا کرتے ہیں۔ایک کباب فروش سے میں نے انٹرویو کیاتو معلوم ہوا کہ ان کے مرحوم والد نے انھیں کہا تھا ان مزدوروں کو کھانادینا ہے۔خواہ آپ کومنافع ہو نہ ہو۔اس لئے ہم والدکی طرف سے شروع کئے جانے والے اس کام کو ابھی تک نبھارہے ہیں۔گرمیوں میں دکاندار اپنی دکان کے باہربڑا حمام رکھ کر اس میں برف ڈال دیتے ہیں۔جو گزرنے والا پیاسا اگر پانی پی لے تو ان کامقصد پورا ہو جاتا ہے۔