فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کی ’گرے مانیٹرنگ لسٹ‘ سے پاکستان کا نکلنا ملک کی مشکلات میں گھری معیشت کے لئے اچھی پیشرفت ہے اور سکون کی یہ پہلی سانس بلاشک و شبہ انتہائی ضروری بھی تھی۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ پاکستان کو اِس موقع سے خاطرخواہ فائدہ اُٹھانے کے لئے حکمت عملی وضع کرنی چاہئے اور سیاسی اختلافات دفن کر کے مشترکہ مقصد پر اپنی نگاہیں جمائے رکھنی چاہئیں۔ متنوع اداروں اور محکموں‘ مرکزی بینک سے لے کر سیکورٹی ایجنسیوں تک نے ’ایف اے ٹی ایف‘ کے ہر آخری ایکشن آئٹم کو حل کرنے کے لئے پائیدار‘ کثیر کوششوں میں ہاتھ سے ہاتھ ملا کر کامیابی حاصل کی۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے دور میں مالیاتی پالیسی پر زیادہ توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور پاکستان کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان اور بھارتی پروپیگنڈا سازشوں کا خوبی کے ساتھ مقابلہ کیا اور اِس مشکل سے نکلنے کے لئے پاکستان کے دوست ممالک جیسا کہ ترکی‘ ملائیشیا اور بالخصوص چین نے جو غیرمشروط کردار ادا کیا اُس سے بھارت کے مذموم منصوبے خاک میں مل گئے۔’ایف اے ٹی ایف‘ کی گرے لسٹ سے نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے سر پر لٹکنے والی انسداد منی لانڈرنگ اور انسداد دہشت گردی کی مالی معاونت کرنے جیسا ممکنہ الزام لگنے کا اب خطرہ نہیں لیکن اِس پیشرفت کے ساتھ کچھ ذمہ داریاں بھی جڑی ہوئی ہیں۔ پاکستان کو ’گرے لسٹ‘ سے نام نکلنے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غیرملکی سرمایہ کاروں کو مدعو اور راغب کرنا چاہئے۔ ’ایف اے ٹی ایف‘ اس بات کی وضاحت کرنے میں سختی کا مظاہرہ کرتا ہے کہ گرے لسٹ میں شامل ممالک اور خطوں کے لئے مستعدی سے متعلق بہتر اقدامات کے لئے کوئی مطالبہ نہیں ہے لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ مالیاتی منڈیوں کے رویئے میں بنیادی طور پر ادراک کا عمل دخل ہوتا ہے اور پاکستان کی معیشت‘ جو کہ مون سون بارشوں کے باعث سیلابوں کی زد میں ہے اِسے سہارا دینے کے لئے ضروری ہے کہ عالمی سطح پر ملک کی ’کریڈٹ سٹینڈنگ‘ کم ہونے کی وجہ سے بڑھے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس موقع پر ان تمام اداروں اور افراد کو خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے پاکستان کے قانونی‘ انتظامی اور ریگولیٹری فریم ورک کو شکل دینے کے لئے کثیر الجہتی کوششیں کیں۔ اِس سلسلے میں بالخصوص وزیر خارجہ اور ’سی او ایس‘ کے کردار کو سراہا گیا ہے۔ وزیر خارجہ نے کامیابی پر قوم کو بھی مبارکباد پیش کی ہے۔ بیرونی محاذ پر دیکھا جائے‘ تو ’ایف اے ٹی ایف‘ کی گرے لسٹ سے اخراج پر پاکستان کے دوست ممالک نے مبارک باد دی ہے اور خوشی کا اظہار کیا ہے۔ امریکہ نے ’ایف اے ٹی ایف‘ کے مذکورہ اقدام کو سراہا ہے اور پاکستان کی کوششوں اور بہتری کی بھی تعریف کی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے اخراج کے بعد پاکستان کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے تاکہ سرمایہ کار پاکستان کا رخ کر سکیں لیکن اگر ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہوگا تو ’ایف اے ٹی ایف‘ کی گرے لسٹ سے نکلنے کے بھی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ پاکستان کو ”چارٹر آف اکانومی“ کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ آج ہے اور اِسے نہایت ہی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ (نواز) چارٹر آف اکنامی کی حامی رہی ہے جبکہ وہ حزب اختلاف میں تھی اور اب جبکہ حکومت میں ہے تو سیاسی استحکام کے لئے حزب اختلاف کو قائل کرنے کی ذمہ داری بھی حکمراں اتحاد ہی کے کندھوں پر ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ اس معاملے کو ترجیح دے کر ایک اچھی روایت کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔ یہاں پارلیمنٹ کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ سیاسی استحکام پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرے اور ملکی معیشت کو رواں دواں رکھنے میں بصیرت و بصارت کا ثبوت دے۔ ملکی معیشت کو اپنے چھوٹے موٹے سیاسی مفادات کا یرغمال نہیں بننا چاہئے۔ ملک کی وسیع اقتصادی سمت اور صحت مند بنیادی اصولوں پر اتفاق رائے میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔