ہمیشہ دیر کردیتاہوں میں 


نیا سورج روز طلوع ہو تا ہے۔اس کے ساتھ دنیا بھر میں ہر انسان کو نئی مصروفیات کا سامناکرنا پڑتا ہے۔جن میں سے کچھ اپنی پسندیدہ ہوتی ہیں جن کو اگر اگلے دن پر اٹھا رکھیں تو کوئی حرج نہیں ہوتا۔مگر بعض تو ایسی ہوتی ہیں کہ اسی روز ادا کرنا پڑتی ہیں۔ایسے میں انسان کہاں جائے۔ جبکہ اس کے پاس فرصت بھی نہ ہو۔وقت کی زنبیل میں اس کے لئے فراغت کے لمحات موجود نہ ہوں۔ہمارا بھی کچھ اسی قسم کا المیہ ہے۔عمر کے اس حصے میں آن پڑے ہیں کہ وقت کا دامن تنگ پڑتا جا رہا ہے اس زندگی میں اتنی فراغت کسے نصیب۔ اتنا نہ یاد آ کہ تجھے بھول جائیں ہم“۔پھر سوچتے ہیں کہ کچھ مطالعہ تو کرلیں مگر کوئی کتاب پڑھنے کو بھی کہاں وقت ملتا ہے۔ کتابیں جو پڑھنا ہیں ویسے کی ویسے دھول سے اٹی ہوئی میز پررکھی ہیں۔جی چاہتا ہے تالاب میں پھینک دیں او رکسی مردِ راہ داں کے پیچھے پیچھے چل پڑیں۔پھر سوچ یہ ہوتی ہے کہ اب پڑھنے کی وہ عمر نہیں رہی۔اب تو لکھنا ہے۔”عجب اعتبار و نااعتبار کے درمیان ہے زندگی“۔مگر پڑھنا اس لئے ہے کہ پڑھانا ہے۔اگر پڑھیں گے نہیں تو پڑھائیں گے کیسے۔کیونکہ ہمارا منصب تو پڑھانا ہے۔مگر زندگی کے اور بیشتر کام بھی تو ہیں۔جن کو انجام دینا ضروری ہے کسی ایسے فارغ البال آدمی پر نظر جاپڑے جس کو پتا نہ ہو کہ دو بجے دن کو کورٹ نے ملک کا بڑا فیصلہ سنانا ہے تو اس کی فراغت پر دور دور سے خوشی ہوتی ہے کہ کتنا بے غم انسان ہے۔خوش قسمت ہے کہ اس کو کسی بات کاپتا ہی نہیں اور یہ بے فکری کہ دنیا او رجو کچھ اس میں ہے اس سے بے نیاز اپنا کھیل تماشوں میں مصروف ہے۔ ہم پرتو سو ذمہ داریاں ہیں۔صبح سے شام تک ان ذمہ واریوں کو نبھانا پڑتا ہے۔ فلمیں تو کیا گھنٹے بھر کا ڈرامہ دیکھنا بھی دو بھر ہوا جاتاہے۔ پھر کس چینل کا ڈرامہ دیکھا جائے۔ ہر چینل پرنئے نئے آفات زمانہ قسم کے ڈرامے ہیں۔کون سا دیکھیں اور کون سا چھوڑیں۔ ہر ڈرامہ دیکھنے کے قابل ہے۔ ہو سکتا ہے ٹی وی کے ساتھ اکثر صاحبان کو لگاؤ نہ ہو مگر ہم ٹھہرے فنونِ لطیفہ کے آدمی۔ہمیں دیکھنا ہوتا ہے۔شو بز کی گلیمر کی دنیا کے سمندر میں غوطہ زن ہونا پڑتا ہے۔تب جا کر دنیا کو سمجھنے کاموقع ملتاہے۔کتنے اچھے ہیں وہ لوگ جو ان چیزوں سے دور ہیں۔وہ اپنا مزے سے بے فکری اور بے حسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ماضی کے ایک صدر نے ایمرجنسی نافذکردی تھی اور ساتھ آئینِ پاکستان کو ایک طرف کرکے رکھ دیاتھا۔ اس وقت دہلیز میں کھڑے گھرسے باہر کسی عزیِز کے ہاں جانے کی تیاری میں تھے۔بڑی بریکنگ قسم کی نیوز تھی۔ سوچا گھرمیں ٹی وی کے آگے بیٹھنے سے کہیں اچھا ہوگا کہ جہاں جا رہے ہیں وہیں رشتہ داروں کے گھرٹی وی پردیکھ لیں گے۔کیونکہ اچھوتی خبرہے اور وہ بھی دیکھ رہے ہوں گے۔لیکن حیرانی ہوئی کہ وہاں پہنچے تو انھوں نے نئے زمانے کے گانے لگا رکھے تھے۔ ہم نے پہنچتے ہی فوراً کہاں چینل بدلو ایمر جنسی نافذ ہو گئی ہے۔ ان کے لئے یہ ایک عجیب بات تھی۔پوچھنے لگے یہ ایمرجنسی کیاہوتی ہے۔میں بہت حیران ہوا کہ کیونکہ ہشت نگری اور چوک شادی پیرسے ہوکر کنواں سیخاں سے اتر کر محلہ سیٹھیان پہنچے اور پھر وہاں سے شار ٹ کٹ لگا کر بازارِکلاں کر کے اس کر کے اندرون کالا کھوئی اور پھر مروی ہا کے محلے سے ہوکر چھوٹے ٹیڈی گیٹ سے نکل کرسینٹ جان ہائی سکول کے پاس سے گزرے اور کوہاٹی دروازہ کے باہر سے جلدی جلدی سرکی دروازہ کے اندر داخل ہوکر نظام چاول والے کی گلی میں سے ہوتے ہوئے  وہاں پہنچے تھے مگر جو ہیبت اور خوفناکی ہمیں تھی مجال ہے کہ کسی شہری کے چہرے پر راستے میں اس قسم کی پریشانی کا حال دیکھاہو۔بعدمیں سوچاکہ ان بیچاروں کو تو روٹی کپڑا مکان کی فکر ستا رہی ہے۔ان کا سیاست سے کیاکام۔عوامی مزاج تو یہی ہے کہ جوحکمران بھی کرسی پرہو مگر ہم شہریوں کو سکون کی زندگی مہیا کرے۔اکثر لوگوں کو دیکھتا ہوں تو حسرت سی اٹھتی ہے کہ کتنے فارغ ہیں او رہم کتنے مصروف ہیں۔ہمیں ہر چیزکا خیال کرناپڑتا ہے۔اسی لئے تو ہمیں دیر ہوجاتی ہے۔ہرکام کرنے میں۔