موسمیاتی تبدیلیوں کا بڑا سبب ’ماحولیاتی تنوع‘ میں بگاڑ ہے اور جب ہم ماحولیاتی تنوع کی بات کرتے ہیں تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کرہئ ارض کے وسائل پر صرف انسانوں کا ہی حق نہیں بلکہ دیگر ہم زمین جانداروں کے بھی یکساں حقوق ہیں جنہیں نظرانداز کرنے سے صورتحال میں بہتری نہیں آئے گی‘ ذی شعور فکرمند ہیں کہ عالمی موسمیاتی تبدیلیاں انسانی آبادیوں کو متاثر کر رہی ہیں‘ جیسا کہ دنیا کے کچھ حصوں میں خشک سالی کا مستقل سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور رواں برس کئی یورپی ممالک کو تاریخ گرم ترین موسم گرما کا سامنا کرنا پڑا اور یہی وہ عرصہ تھا جب پاکستان میں معمول سے زیادہ مون سون بارشیں ہوئیں جن کی وجہ سے سیلاب آئے اور صرف انسان ہی نہیں بلکہ جنگلی حیات اور حیاتیاتی تنوع بھی متاثر ہوا ہے لیکن سیلاب سے متاثرین کے حوالے سے جس قدر بھی بات ہوتی ہے وہ صرف اور صرف انسانوں کے گرد گھومتی ہے اور انسانوں ہی کے ذکر سے شروع ہو کر انسانوں ہی کے مصائب و مشکلات پر آ کر ختم ہو جاتی ہے۔
عالمی سطح پر جانوروں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیم ورلڈ وائلڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) نے اپنی ویب سائٹ (panda.org) پر سیلاب سے متاثرہ جنگلی حیات کے بارے میں کچھ حقائق جاری کئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں افریقہ میں جنگلی حیات 66فیصد کم ہوئی ہے جبکہ ایشیائی پیسیفک (خطے) میں یہ نقصان 55فیصد ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے زیرآب یا آبی ذخائر کے قریب رہنے والی مخلوقات کی تعداد میں 88فیصد کمی اپنی جگہ تشویشناک ہے‘دنیا بھر میں میٹھے پانی کی انواع تقریباً 88فیصد تک گر گئیں‘ یوں ماحولیاتی تنوع میں بگاڑ پورے ماحولیاتی تنوع کو نقصان پہنچا رہا ہے جس سے پورا نظام معذور مفلوج و معذور ہو چکا ہے اور ماہرین کے مطابق یہ نظام زمین پر زندگی کے رواں دواں رہنے کیلئے انتہائی کلیدی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اِس سے جڑا ’فوڈ چین (food chain)‘ زمین کی زرخیزی اور اِس کی صفائی ستھرائی کا بھی ذریعہ ہے۔ ’ڈبلیو ڈبلیو ایف‘ کہتا ہے کہ کرہئ ارض پر بسنے والی کسی ایک مخلوق کی نسل ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اُس سے جڑی کسی دوسری مخلوق اپنی خوراک سے محروم ہو جائے گی اور دنیا کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ ایک کے بعد ایک مخلوق کے معدوم ہونیکا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
مخلوقات کے معدوم ہونے سے پیدا ہونیوالا مسئلہ فرضی یا افسانوی نہیں بلکہ حقیقی ہے اور اگر انسان ہم زمین مخلوقات کے وجود کو برداشت کرتے ہوئے اُن کی موجودگی کا بھی احترام کریں تو اِس سے موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے لیکن چونکہ ماحولیاتی تنوع میں بگاڑ کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں اور نہ ہی اِس کیلئے کوئی ایک ملک تن تنہا ذمہ دار ہے اِس لئے عالمی سطح پر ’ماحولیاتی تنوع بارے مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دیتے ہوئے ممالک کو ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہو گا‘وسائل کے لحاظ سے دنیا ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں تقسیم ہے لیکن چونکہ سب کا گھر ’کرہئ ارض‘ ہے اِسلئے موسمیاتی تبدیلیاں سب کیلئے یکساں خطرے کی بات ہے‘ ترقی یافتہ ممالک نے صنعتی ترقی کے نام پر جس انداز سے ماحولیاتی نظام کا ستیاناس کیا‘ اُس غلطی کا احساس کرتے ہوئے اب بھی وقت ہے کہ ماحول دشمن گیسوں کے اخراج کو فوری طور پر کنٹرول کیا جائے کیونکہ اِس ایک محرک کی وجہ سے کرہئ ارض کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
درجہ حرارت میں یہ اضافہ بذات خود جنگلی حیات کی بقاء اُور اُن کے رہن سہن کو متاثر کر رہا ہے‘ جس کے وہ انسانوں کی طرح عادی نہیں ہوتے اور عموماً ایک ہی ماحول اور درجہئ حرارت میں زندگی بسر کرنے کے قائل ہوتے ہیں‘ ماحولیاتی تنوع میں بگاڑ کی کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں اور اِن میں سے ہر ایک کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ کیا یہ بات دنیا کیلئے باعث تشویش نہیں ہونی چاہئے کہ میٹھے پانی پر انحصار کرنیوالے حیوانات کی تعداد میں اٹھاسی فیصد جیسی غیرمعمولی کمی ہو رہی ہے‘ ایک کے بعد ایک اور ہر بحران کے بعد زیادہ شدت سے ایک نیا بحران دستک دے رہا ہے اِس خطرے کا ادراک کرنے میں یہ اصول رہنما ثابت ہو سکتا ہے کہ کرہئ ارض کسی ایک کی ملکیت نہیں بلکہ جملہ ہم زمین مخلوقات کا واحد مسکن ہے اور یہ کہ ہم انسانوں پر فرض ہے کہ ہم زمین نباتات اور حیوانات کے تحفظ اور اِن کے حقوق بشمول زندہ رہنے جیسے بنیادی حق کو تسلیم کریں اور اِس کی ادائیگی کیلئے خاطرخواہ کردار ادا کریں۔