آدمی ساٹھ سال تک کی عمر کو پہنچ جائے تو پچھلے پچاس سال اس کی زندگی میں بہت اہم ہوتے ہیں؛جب وہ نانااور دادا بن چکا ہوتا ہے‘جب جب کوئی پسندیدہ میٹھی دھن کوئی سریلا نغمہ کوئی مدبھرے بول‘ اس کے کانوں میں پڑتے ہیں اس وقت وہ جھوم جاتا ہے۔ ٹھک سے وہ تمام ماضی قوسِ قزح کے رنگوں کی دھنک اس کی پلکوں کے روبرو رنگ برنگی برسات مچا دیتی ہے‘جیسے اسے کسی نے یک دم اٹھا کر دور ماضی کی حسین وادیوں میں پہنچا دیا ہو‘ ان حسین یادوں میں گنگا جمنی رنگ لئے ایک دھاگا سونے کا اور دوسرا چاندی کا بھی ہوتا ہے‘یعنی اس کی یاداشت ان دو رنگوں کے تاروں کے ایک دوسرے سے بل کھا کراس کی میموری کی بنت کرتے ہیں‘ وہ ایک رنگ تو خوشی کا ہوتا ہے جبکہ دوسرے رنگ کا تار اس غموں سے بندھا ہوتا ہے جہاں اس کو پرانی خوشیاں یادآتی ہیں جو دوبارہ نہیں آسکتیں‘ وہیں اس کو اس کے درد و غم پھر تنگ کرنے لگتے ہیں جنہیں دوبارہ آنے کی ضرورت نہیں ہوتی‘کیونکہ وہ وہا ں موجود رہ جاتے ہیں۔
وہ اس کے ذہن کی کال کوٹھری میں اپنی آزادی کی راہ تک رہے ہوتے ہیں اور پھر اس کو غموں کا حساب انہی تاروں کے ساتھ پروئے گئے موتیوں کی صورت ڈھلکتا محسوس ہو تا ہے۔اس کی مژگاں پر جڑے ہوئے ان نگینوں کی چمک اس کو دھندلا دکھلانے لگتی ہے‘گویا میر کی زبان میں ”بس اے میر مژگاں سے پونچھ آنسوؤں کو۔تو کب تک یہ موتی پروتا رہے گا“ پھر خوشیوں کی لہر اگر یاد آئے تو وہ اچانک بھول بھی جاتی ہے مگر غم یاد آجائے تو وہ تادیر زندہ رہتا ہے بلکہ پورا دن اور دوسرے روز بھی دل میں کچوکے دیتا رہتا ہے‘دور کہیں سے خاطر غزنوی کی مدھ بھری آواز کانوں میں رس گھول رہی ہے”یوں تو وہ میری رگِ جاں سے بھی تھے نزدیک تر۔آنسوؤں کی دھند میں لیکن نہ پہچانے گئے“بلکہ عدیم ہاشمی نے کہا ”یہ سبھی ویرانیاں ا ن کے جدا ہونے سے تھیں۔
آنکھ دھندلائی تھی لیکن شہر دھندلایا نہ تھا“جہاں پچھلی پانچ دہائیوں میں خوشیاں یاد آتی ہیں‘وہاں پرانے درد بھی تو دل کے تار چھیڑ دیتے ہیں۔ پھر وہ شعر ”بجے گی جب بھی شہنائی تو لے گا درد انگڑائی۔ہزاروں غم تیرے غم کے بہانے یاد آئیں گے“آدمی کی حیات کی پچھلی نصف صدی ہی رہتی ہے کیونکہ عام طور سے جہاں اس نے اپنی عمر کی نصف سنچری سکور کر لی ہوتی ہے وہ اس نے خود نہیں کی ہوتی وہ تو قدرت کی طرف سے تحفہ میں ملی ہوتی ہے مگر ان پچاس رنزوں پر سنچری بنانا اس کو تحفے میں نہیں ملا ہوتا کیونکہ اکثر تو ننانوے پر بھی آؤٹ ہو جاتے ہیں مگر پچاس سال تک پہنچ جانا بھی تو اس کے بس میں نہ تھا‘ ساٹھ سال میں تو وہ بچہ بن کر بس ماضی میں کھویارہتا ہے‘ایسا کیوں ہوا‘ ویسا کیوں ہواکہیں‘ایسا نہ ہوجائے اب کہیں ویسا نہ ہو جائے۔
وہ جلد از جلد بچوں کی خوشیاں دیکھنا چاہتا ہے اور اپنے پوتوں پوتیوں کو اپنے سامنے جوان ہوکر کسی مقام پرپہنچ کر ترقی کرتے ہوئے دیکھنا اس کی دلی تمنا ہوتی ہے‘کیا کھویا کیا پایا‘وہ ان ہی پچھلے پچاس برسوں میں تلاشتا ہے‘ایک آدمی کی عمر میں پچھلے پچاس سال بڑی اہم چیز ہوتے ہیں مگر اس نصف صدی کی اہمیت کا احساس اکاون سال میں نہیں ہوتا وہ کہیں جاکر ساٹھ کے بعد دس سال مزیدگزرنے پر بھی ہوسکتا ہے کیونکہ انسان کی عمر کے ہر عرصہ کی اپنی ایک سوچ ہوتی ہے‘مثلاً ساٹھ سالہ بابے کو جو پچھلے پچاس سال کی عمر کے اکاؤنٹ میں یاد آتا ہے وہ اکاون نمبر کے سال میں نہیں یاد آسکتا کیونکہ وہ اعصاب کے لحاظ سے اور ہرطرح اپنے آپ کو عمر کے ساٹھویں سال ہی میں کمزور پاتا ہے۔اس کی سوچ یکسر بدل جاتی ہے وہ اولاد کو الٹا سیدھا کرتے ہوئے دیکھ کر کڑھتا ہے۔
چاہتا ہے کہ میری اولاد کوئی غلطی نہ کرے۔مگر خدا کی قدرت ہے جو ساٹھ سالہ سوچ ہوتی ہے وہ تیس چالیس سال کی عمر والوں کو نہیں ہوسکتی‘وہ تو اپنی جوانی کے نشے میں ہوتے ہیں‘ان کو سمجھ ہی نہیں آتا کہ ابو جان اور دادا جان کیا فرما رہے ہیں‘یہ توجب نشہ ٹوٹتا ہے تو ان کو ایک ایک کر کے قبلہ والد صاحب کی ہر ہر بات یاد آتی ہے‘ سوچتے ہیں کہ وہ سچ فرمایاکرتے تھے‘ پچھلے پچاس برسوں میں تو ایک دنیا گزر گئی ہوتی ہے۔لا تعداد لوگ موت کی وادی میں منتقل ہو گئے ہوتے ہیں‘ وہ جو شہر کے ماتھے کاجھومر تھے وہ جو شہر کے دروازے تھے وہ سب چہرے ایک ایک کر کے سلیٹ پر اگلے سوالات کے لکھنے کو مٹی نے مٹا دیئے ہوتے ہیں۔مگر جو ماضی ہی کو لے کر بیٹھ جائے اپنی موجودہ زندگی کا خاتمہ جلد کرنے لگتا ہے۔ آئندہ اچھے مستقل کی امید آدمی کو جوان رکھتی ہے اسے زندہ رہنے میں مدد دیتی ہے۔