شہر کی شام

سڑکوں پہ روز خجل خوار ہوتا ہوں۔ کبھی کس سلسلے میں اور کبھی کس مسئلے کے تحت ایک سے دوسری اور دوسری سے تیسری سڑک اختیار کرتا ہوں۔لگتا ہے کہ زندگی یونہی ان سڑکوں کو ناپتے ہوئے گزر جائے گی۔ سڑکیں وہی ہیں مگر ان پر جو دھکم پیل ہوتی ہے وہ قابلِ افسوس ہے۔ یہ افراتفری بہت حد تک ناجائز ہے۔ کیونکہ ان سڑکوں پر کار چلانے والے ناحق کی بھیڑ بنا دیتے ہیں۔ ان گاڑی والوں کو خاص طور لاج آنا چاہئے کہ یہ لوگ ہر صورت میں اپنا راستہ لینا چاہتے ہیں۔ وہ راستہ جو ان کا اپنانہیں ہوتا۔ یہ تو گاڑیوں کی بھاری بھرکم جسامت ہے۔ بائیک والے رش میں گھس کر حسبِ ضرورت نہ بھی ہو تو فٹ پاتھوں پر چڑھ جاتے ہیں۔ گاڑی  والوں کا بس چلے تو وہ بھی ان کی ادا پر عمل کریں۔ مگر وہ گھنے بازار میں اپنی سست روی کے ہاتھوں مجبور ہیں۔مگر پھر بھی ان گاڑی چلانے والوں کے اندر ایک جلدی پائی جاتی ہے جو گاہے گاہے نظر آ جاتی ہے۔ان کو موٹر سائیکلوں والوں سے بہت حسد محسوس ہوتی ہے جس کا پتا اس وقت چلتا ہے جب ان کے پہلو میں سے بائیک رائیڈر کو گزرنے کی جا ہوتی ہے مگر یہ اس کو جان کر گزرنے نہیں دیتے۔ مگر یہ بائیک والے کون سی اچھی اداؤں کے مالک ہیں۔ بجلی کی سی تیزی کے ساتھ پاس سے گزر ہی جاتے ہیں۔اگر ہجوم ہے اور ٹریفک بلا ک ہے مگر اس کے باوجود انھوں نے گزرنا ہوگا۔  شہر کا ماحول ٹریفک کے اژدہام کے کارن کافی حد تک خراب ہو چکا ہے۔پھر مجھے کہنے میں باک نہیں کہ یہ ماحول کی خرابی زیادہ تر موٹر سائیکلوں والوں ہی کی وجہ سے ہے۔اگر اس میں کچھ کمی ہے تو وہ رکشوں والوں نے پوری کر رکھی ہے جس میں چنگ چی والے بھی شامل ہیں۔جہاں ان کا اگلا ٹائر گھستا ہے یہ وہاں دھرنا دے کرراستہ مانگتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ بازار میں گاڑی اور رکشہ وغیرہ چلانا بہت آسان ہے۔کیونکہ ان کے تین اور چار پہیوں کی وجہ سے ان کا توازن برقرار رہتا ہے۔یہ اپنے زور پر دائیں بائیں گر نہیں سکتے۔مگر یہاں جو چیز چلانا بہت مشکل ہے وہ موٹر سائیکل ہے جو کسی بھی وقت ٹائر کے پھسلنے کی وجہ سے بھی حادثے کا شکار ہو سکتا ہے۔اس بازار کی سب سے نازک سواری یہی بائیک ہے۔صاحبان شام  کے وقت بازار نکل جانا تو عین حماقت ہے۔اتنا رش ہوتا ہے کہ آدمی کے ناک میں دم ہو جاتا ہے۔بعض جگہوں پر پھنس کر نہ تو آگے جایا جاتا ہے اور نہ اپنا فیصلہ واپس لے کر پیچھے مڑ جانے کی راہ اپنائی جا سکتی ہے۔کیونکہ شام کے وقت دکاندار اپنی دکانیں بند کر شہرکے باہر جس نگری سے آئے ہوتے ہیں اس طرف کی مین شاہراہوں کا رخ کرتے ہوئے انھیں مجبوراً بھیڑ بنانا پڑ جاتی ہے۔پھر وہ لوگ جو شہر کے باہر دوسرے علاقوں اور بازاروں میں دکانیں بند کر کے واپس اسی شہر میں اپنے گھر کو لوٹ رہے ہوتے ہیں وہ اس رش میں بھی اضافہ کا باعث بن جاتے ہیں۔خود اس شہر کے رہائشی جو شہر ہی کے اندر گھومتے پھرتے کام کاج سے آتے جاتے ہیں وہ تو وال کلاک کی پنڈولیم کی طرح بیچ میں لٹک کر رہ جاتے ہیں۔ جیسے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار تے ہیں۔ایسے میں شہر کے باسی اگر کسی پارک کا رخ کر رہے ہوں تو ان کی خیر نہیں۔پھرشہر کے باہر سے بھی پارکوں کی سیر اور وہاں جھولے لینے کے لئے آنے والوں کی وجہ سے شہر کا حسن اور رش بڑھ تو جاتا ہے۔مگر خودشہر کے پیدائشی رہائشیوں کی تو جیسے شامت آ جاتی ہے۔وہ کہیں کے نہیں رہتے۔سو پشاور کی شام خوبصورت تو ہوتی ہے مگر ان کے لئے جو فارغ ہیں اور کوئی کام دھندا نہیں کرتے صرف سیر سپاٹا کرنے کے عادی ہیں۔ مگر جن کو ضروری کام ہے جو کسی شادی ہال وغیرہ کا پتا تلاش کر رہے ہیں وہ خود یونہی آنے جانے میں ضائع ہونے لگتے ہیں۔ پھر رش کی وجہ سے انتظامیہ نے راستوں کی سہولت دے رکھی ہوتی ہے جو بارہا شہریوں کو تکلیف دینے کا باعث بنتی ہے۔جگمگاتی روشنیوں کے بیچ کسی کے لئے دل کی راحت کا سامان ہوتا ہے اور کسی کے دل دوماغ کے لئے اندھیروں کا باعث ہے۔بس علاج یہ ہے کہ گھر سے نہیں نکلو۔ پھر اگر نکلنا ضرور ہے تو دل کو بڑا کر کے آؤ۔ اس لئے کہ اس رش کو برداشت کرنا ہے۔اس بھیڑ میں قانون کی دھجیاں اڑانے والوں کو دیکھنا ہے اور جلنا کڑھنا ہے۔کیونکہ بازار میں ہر آدمی یہی چاہتا ہے وہ پہلے نکل جائے وگرنہ پھنس جائے گا۔