اگر اس نے کچھ اچھا کر کے بتلانا ہے۔ تو پھرایک اکیلا بندہ کہیں بھی کسی ادارے او رکسی معاشرے میں کچھ نہیں کر سکتا۔اگرچہ یہ سڑک ہی کیوں نہ ہو۔ جب تک کلی طور پر سمجھ بوجھ حاصل نہ ہو۔سب اگر چاہتے ہوں کہ معاشرہ ٹھیک ہو جائے تو پھر معاشرہ درست ہوگا۔ وگرنہ اپناقیمتی وقت ضائع کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔آگاہی مہم چلائی جاتی ہے۔آئے روز کبھی کس کام کے سلسلے میں او رکبھی کس مسئلے کے ماتحت رو بہ عمل لائی جاتی ہے۔مگر جسے تبدیلی کہتے ہیں وہ نہیں آرہی پا رہی۔مہم شروع ہوتی ہے اور اپنے منطقی انجام تک شام سے پہلے پہلے پہنچ جاتی ہے۔مگر جن کو سمجھ دلانا مقصود ہوتا ہے وہ سن کر ان سنی کر دیتے ہیں۔ دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ وہی کرتے ہیں جو ان کا من چاہتا ہے۔وہ اپنی بین بجاتے رہ جاتے ہیں اور جن کو عمل کرنا ہوتا ہے وہ اپنے آپ میں جان کر بھی تبدیلی نہیں لاتے۔اب ہمارے ہاں ٹریفک کا اِشو بہت زیادہ اور گھمبیر ہے۔
ایک آدمی جو ڈرائیونگ کر رہاہے وہ اگر ٹریفک کے اصولوں کا خیال کر کے گاڑی چلائے تو کب تک ایسا کرے گا۔ آخر ہفتہ بھر میں تھک ہار کر اسی روش پر گامزن ہو جائے گا جس خلاف ورزی کی راہ پر وہ پہلے چلا کرتا تھا۔ کیونکہ ایک اکیلے کی کوشش سے تو کچھ نہیں ہونے والا۔ وہ تو اپنی سمجھ بوجھ کو کام میں لائے گا۔مگر یہاں جو پورا معاشرہ کچھ اور رنگ میں ہی رنگا ہوا ہے وہ کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے۔سو لامحالہ وہ اصولوں کی پاسداری کرنے والا خلاف ورزی پر اُتر آئے گا۔پھر اس کا بھی جو جی چاہے گا وہی کرے گا۔ وہ اگراس ماحول میں آئے گا او راپنی سی دانست لے کر آئے گا مگرآلودہ ذہن ہو جائے گا۔ اک اکیلے نے سرٹیفیکیٹ لئے ہوں مگر سائیڈ کی سروس روڈ پر بھی مجبور ہوگا کہ جلدی کرے کیونکہ دوسرا تیسرا اپنی گاڑی اور گدھا گاڑی لے کر بیچ میں گھسا ہوگا۔حالانکہ اس کا یہاں کیا کام مگر اس سے پوچھو تو کہے گا اس سروس روڈپر تو ہم جیسوں کا حق ہے۔
آخر ہمارے لئے بھی تو کوئی راہ مختص ہونی چاہئے۔سو اس شہرِ گل وگلزار میں گاڑیوں کا چلن اصول کاچال چلن ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ورنہ وہی چال بے ڈھنگی ہوگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔ایک گاڑی والا اگر تہذیب و شائستگی کامظاہرہ کرتا ہے تو اس کا یہ عمل ضائع جاتا ہے۔کیونکہ اس کی شرافت کا لحاظ کسی کو نہیں ہوتا۔دوسروں کا بس چلے تو اسی کو روند کر آگے نکل جائیں۔ بلکہ اک ذرا کسی خاتون اور بچوں اور بوڑھوں کے لئے آپ نے گاڑی کی رفتار آہستہ کی توپیچھے سے ہارن پہ ہارن بجیں گے۔ جو یہ احتجاج کرر ہے ہوں گے یہاں رکنے کی کیاضرورت ہے۔پھر سچی بات تو یہ ہے کہ تہذیب و شائستگی جس کا نام ہے ہم لوگ تو اس سے واقف ہی نہیں۔پھر خدا لگتی یہ ہے کہ راہگیروں کو بھی درکار ہے کہ ہر جگہ سے سڑک کراس نہ کریں۔
ان کے لئے اگر حکومت کی طرف سے زیبرا کراسنگ نہیں ہے تو افسوس کامقام ہے۔ان کے لئے روڈ کراس کرنے کے مقامات بھی مخصوص ہونے چاہئیں۔ مگر ہماری معاشرت اس حد تک پُر خراش ہو چکی ہے کہ اگر زیبرا کراسنگ بنا بھی دیئے جائیں تو ان کو سمجھ کون دلائے گا کہ سڑک کو کہیں اور سے کراس نہ کریں بلکہ زیبرا کراسنگ سے کراس کریں۔ یہ تجربات اس شہر میں واقع ہوچکے ہیں کہ زیبرا کراسنگ بنائے گئے۔مگر اس پرعمل درآمد خود عوام نے نہیں کیا۔ وہ زیبراکراسنگ کو خالی چھوڑ کر پاس ہی سے دوسرے مقام پرپیدل چل کر سڑک کے دوسرے کنارے جا رہے ہوتے ہیں۔
سو تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔کچھ حکام نے کرنا ہے اور اس سے زیادہ ذمہ داری عوام نے دکھلانا ہوتی ہے۔ عوام کی یہ ذمہ داری اور بھی بہت مشکل کام ہے۔ کیونکہ نصیحت کرناتو آسان ہے مگر اس نصیحت پرعمل کرنا ہی تو مشکل ہو تا ہے۔جو ہم سے ہو نہیں پائے گا۔ بھلا کسی کو کیا ضرورت ہے کہ رات کے وقت جب ٹریفک پولیس سارجنٹ کی ڈیوٹی آف ہوجائے تو ٹریفک سگنل کے سرخ ہوجانے پرگاڑی کو روک لے اور جب سگنل سبز ہو تو چل پڑے۔شہر کی معروف سڑکوں پر یہ خلاف ورزی کھلے عام دیکھنے کو ملتی ہے باہر کی ترقی یافتہ اقوام ایسا نہیں کرتیں۔ اسی لئے تو وہ الٹا ہم پر اپنی ایجادات کے سہارے حکومت کر رہی ہیں۔جس دن ہم نے بغیر ٹریفک پولیس کے گاڑی کو اصول کے مطابق چلانا سیکھ لیا تو سمجھو کہ ہم ترقی کی راہ پر صحیح طریقے پر پڑ گئے ہیں۔وہ راستہ جس میں ہمارے سسٹم کی جیت ہوگی۔مگر افسوس ہے کہ ہم میں سے اکثر تو ایسا چاہتے ہیں مگر اس کو دل سے قبول نہیں کرتے۔