فلسطینی کب تک اپنے مرنے والوں کا ماتم کرتے رہیں گے اور نام نہاد ’عالمی برادری‘ تماشا دیکھتی رہے گی؟ فلسطین کے نہتے شہری مزید کتنے سال اسرائیلی مظالم کا نشانہ بنیں گے کیونکہ اس طرح کے گھناؤنے جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف کوئی مجرمانہ مقدمہ درج نہیں کیا جاتا؟ پچیس اکتوبر کو مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر نابلس میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مزید چھ فلسطینیوں کی ہلاکت نے ہزاروں فلسطینیوں کو مقبوضہ علاقوں میں سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کر دیا۔ تازہ ترین متاثرین میں دو غیر مسلح افراد شامل تھے جن کا اسرائیلی مقبوضہ مغربی کنارے میں کسی عسکری سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ محنت کش مزدور تھے۔ اِس کے بعد سے غزہ کی پٹی کے محصور فلسطینی انکلیو میں بھی مظاہرے جاری ہیں لیکن فلسطینیوں کے پاس عام ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں کے علاوہ اور کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔ جب وہ اپنے کاروبار اور تجارتی سرگرمیاں بند کر دیتے ہیں تو اسرائیل کو ایک چٹکی بھی تکلیف محسوس نہیں ہوتی اور باقی دنیا کے کاروبار پر چلتے رہتے ہیں۔
ان ہلاکتوں کے تناظر میں مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے میں بڑے پیمانے پر مظاہرے دنیا بھر کی کسی بھی بڑی طاقت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے میں ناکام رہے ہیں۔ کچھ ممالک نے سرد لہجے میں اسرائیلی جرائم کی مذمت کی ہے لیکن دنیا کا کوئی بھی ملک اسرائیل کو چیلنج کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اور اِس کی بنیادی وجہ امریکی پشت پناہی ہے۔ اسرائیل کے مظالم کے پیچھے امریکہ کھڑا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف ہر سفارتی کوشش اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اُس کی مذمت کرتے ہوئے پابندیوں کی کوششیں بھی کامیاب نہیں ہوتیں۔ اسرائیلی قبضے کے خلاف نہتے فلسطینیوں کی مزاحمت زیادہ تر گولیوں اور پتھروں کے استعمال تک محدود ہے جب کہ اسرائیلی قابض افواج کے پاس دنیا کی جدید ترین قتل گاہیں ہیں۔
یہ فلسطینی رہنماؤں کو نشانہ بنانے اور احتجاجی مظاہرین کے ہجوم‘ یہاں تک کہ صحافی پر اندھا دھند فائرنگ کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ اسرائیلی فوج جس استثنیٰ کے ساتھ فلسطینیوں کا قتل عام کر رہی ہیں وہ دنیا اور سب سے بڑھ کر اقوام متحدہ کے لئے باعث تشویش ہونا چاہئے۔ اسرائیل رواں سال کے آغاز سے اب تک درجنوں فلسطینی رہنماؤں اور بچوں‘ بوڑھوں اور خواتین سمیت سینکڑوں عام شہریوں کو قتل کر چکا ہے۔ ایسے اقدامات جو ایک فعال جنگی علاقے میں بھی ’سرخ لکیروں کو عبور کرنے‘ قرار دیئے جاتے ہیں۔ اسرائیل بار بار اور بغیر کسی تعطل کے جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔
اسرائیل نے تمام سرخ لکیریں عبور کر لی ہیں لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل‘ امریکہ یا یورپی یونین کے ممالک اسرائیلی مظالم سے پریشان نہیں لیکن وہ چین یا روس کی بات کرتے ہیں اور خود کو انسانی حقوق کا عالمی چیمپئن قرار دیتے ہیں۔ یہ انسانیت کے خلاف جرائم اور ان لوگوں کے خلاف مظالم ہیں جو صرف پرامن اور آزاد زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں جو کہ تمام مہذب معاشروں کا بنیادی حق ہے اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے عین مطابق بھی ہے۔ اسرائیل شہریوں کے گھروں اور ہسپتالوں کو بھی نہیں بخشتا جو مرنے والوں اور زخمیوں کی آخری پناہ گاہیں ہیں۔
تشدد کا ہر نیا حربہ خطے میں کشیدگی کو مزید ہوا دے رہا ہے اور فلسطینی عوام کے دل انتقام کی آہوں سے خون آلود ہیں۔ اسرائیل کے فیصلہ ساز اپنی اِس سوچ میں کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں کہ تشدد کے ذریعے وہ فلسطینیوں کو زیر کر سکیں گے؟ فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی قبضے کے جرائم پر عالمی خاموشی انتہائی پریشان کن ہے۔ ہر نیا ظلم صورتحال کو مزید گھمبیر کرتا ہے اور اِس سے پیدا ہونے والی کشیدگی عروج پر ہوتی ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے تقریباً روزانہ اسرائیلی چھاپوں کے ساتھ‘ قابض افواج نے دوہزاربائیس کے پہلے دس مہینوں میں کم سے کم ایک سو پچاسی فلسطینیوں کوشہید کیا ہے‘ جن میں سے پچاس غزہ میں شہید کئے گئے ہیں۔ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی مسلمانوں کی خون کی ہولی فوراً بند ہونی چاہئے اور دنیا کو اسرائیل کے مظالم کا نوٹس لیتے ہوئے اِس کے مظالم روکنے کے لئے متحد ہونا چاہئے۔