ملک کے دیگر حصوں کی طرح خیبرپختونخوا کے تمام اضلاع سمیت صوبائی دارالحکومتوں میں بھی گزشتہ دنوں پولیو کا عالمی دن پاکستان سے اس موذی مرض کے مستقل خاتمے کی تجدید عہد کے ساتھ منایا گیا۔اس دن کی مناسبت نیزپولیو کے خاتمے کا عزم کے ساتھ سول سیکرٹریٹ پشاور میں ایک خصوصی تقریب کا انعقادکیا گیا جس کے مہمان خصوصی چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا ڈاکٹر شہزاد بنگش تھے جب کہ اس موقع پر سیکرٹری صحت عامر ترین اور ایڈیشنل سیکرٹری صحت (پولیو) آصف رحیم بھی موجود تھے۔ محکمہ صحت کے مطابق حالیہ مہم کی منصوبہ بندی صوبے کے 28 اضلاع میں کی گئی ہے جس میں 4.38 ملین سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے جبکہ چار اضلاع ڈی آئی خان، ٹانک، جنوبی وزیرستان اور لکی مروت میں اورل پولیو ویکسین (OPV) مہم کے ساتھ فریکشنل ان ایکٹیویٹڈ پولیو ویکسینیشن (fIPV) مہم چلائی جائے گی۔
اکتوبر کی مہم میں بچوں کو قطرے پلانے کیلئے مجموعی طور پر 15212 ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جن میں سے 13374 موبائل ٹیمیں، 1101 فکس اور 737 ٹرانزٹ ٹیمیں ہیں جبکہ 3214 ایریا انچارج مہم کے معیار کو یقینی بنانے کیلئے تعینات کیے گئے ہیں۔دریں اثناء اطلاعات کے مطابق محکمہ صحت کے حکام نے جنوبی وزیرستان کے سب ڈویژن لدھا اور سرواکئی میں تین روزہ انسداد پولیو مہم سکیورٹی وجوہات کی بناء پر ملتوی کر دی ہے تاہم قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان کے ہیڈ کوارٹر وانا میں انسداد پولیو مہم بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہے گی۔حکام نے حفاظتی ٹیکوں کی مہم کو روکنے کا فیصلہ پیرامیڈیکس کے احتجاج کے بعد کیا۔واضح رہے کہ پوری دنیا سے پولیو کا خاتمہ ہوئے عرصہ بیت چکا ہے جبکہ پاکستان افغانستان کے بعد دسراملک ہے جہاں نہ صرف پولیو کی بیماری موجود ہے بلکہ آئے روز اسکے کیسوں میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
یہ بات قابل تشویش ہے کہ اس وقت تک پاکستان میں پولیو کے بیس کیس رپورٹ ہوچکے ہیں جن میں سترہ کیس شمالی وزیرستان، ایک جنوبی وزیرستان اور دو کیس ان دواضلاع کے ملحقہ ضلع لکی مروت میں رپورٹ ہوئے ہیں۔پولیو کیسزمیں اضافہ کے حوالے سے ایک تشویش ناک پہلو اس کا خیبر پختون خوا کے جنوبی اضلاع اوربالخصوص شمالی،جنوبی وزیرستان اور لکی مروت میں سامنے آنا ہے۔ ان علاقوں میں ماضی میں چونکہ بدامنی کا دور دورہ رہا ہے اور یہاں کے باسیوں کو اپنے علاقوں سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کرنی پڑی تھی شاید اس وجہ سے یہاں کی ایک بڑی آبادی اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے معذور رہی تھی‘ اب یہاں پر حکومتی رٹ بحال کر دی گئی ہے تو ہونا تو یہ چاہئے کہ ان علاقوں میں وسیع پیمانے پر پولیو کے قطرے پلانے کی خصوصی مہمات چلائی جائیں۔
میڈیا میں یہ بات رپورٹ ہو چکی ہے کہ مقامی سطح پر مقامی سرکاری اہلکارامن وامان کی مخدوش صورتحال اور پولیوٹیموں پر ہونے والے قاتلانہ حملوں کے وجہ سے پولیومہمات چلانے سے مسلسل یا تو انکار کر رہے ہیں اور یا پھر اس ضمن میں وہ دلچسپی نہیں لی جارہی ہے جو کہ اس موذی مرض کے مستقلاً تدارک کے لئے ضروری ہے۔ اس ضمن میں یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ پولیو ٹیموں نے حکومت سے فول پروف سکیورٹی کا مطالبہ کیا ہے۔یہاں اس امر کی نشاندہی بھی اہمیت کی حامل ہے کہ خیبر پختون خوا میں ماضی میں کئی اضلاع میں پولیو ٹیموں پر قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں جن میں پولیو ورکرز کے علاوہ سکیورٹی اہلکار بھی نشانہ بنتے رہے ہیں۔
لہٰذا اگر حکومت وطن عزیز سے پولیو کے خاتمے میں واقعی سنجیدہ ہے اور وہ چاہتی ہے کہ دنیا کی طرح پاکستان سے بھی پولیو کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو جائے تو اس کے لئے جہاں متاثرہ علاقوں میں پے درپے مہمات کا چلایاجانا ضروری ہے وہاں ان مہمات کو چلانے والے اہلکاروں کے جان کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں عمومی طور پر ایسی فضا ء بھی بنانا ہوگی جس سے لوگ خوشی اور اپنی مرضی سے اپنے بچوں کو پولیوسے حفاظت کے قطرے پلانے پر آمادہ ہوں‘اور یہ کوئی مشکل کام نہیں اگر مربوط اور منظم انداز میں میڈیا کے ذریعے مہم چلائی جائے اور ساتھ ہی مقابل زعماء کے کردار سے استفادہ کیا جائے تو زیادہ تر انکاری والدین کو قطرے پلانے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے‘ لہٰذا توقع ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں تمام سٹیک ہولڈر ز کو اعتماد میں لیتے ہوئے وطن عزیز کو پولیو سے پاک کرنے کے قومی مشن اور بین الاقوامی ذمہ داری کی ادائیگی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گی اور ان مہمات کو کامیاب بنانے کیلئے کسی بھی سطح پر کو ئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا جائے گا۔