ٹیکنالوجی خواندگی

انٹرنیٹ کے ذریعے معاشرے میں تبدیلی اور انٹرنیٹ وسائل جس میں ’سوشل میڈیا‘ سرفہرست ہے کے استعمال سے طرزحکمرانی کی لاگت میں کمی اور بہت سی خامیوں کو دور کیا جا سکتا ہے لیکن اِس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے ’سوشل میڈیا‘ کے ابتدائی اسباق اور مقاصد کے بارے میں پائے جانیوالے شکوک و شبہات  دور کرنیکی ضرورت ہے۔ سمجھنا ہوگا کہ سوشل میڈیا انفرادی و اجتماعی سطح پر تبادلہئ خیال‘ اظہار خیال‘ تجزیہ کاری‘ علمی ادبی اور فنون لطیفہ کے علوم میں ہونیوالی تحقیقات و تخلیقات کی تقسیم یعنی ایک ایسے تعلق کا وسیلہ ہوتے ہیں جسکے انٹرنیٹ پر منحصر آلات (ہارڈ وئرز اور سافٹ وئرز) کا استعمال کیا جاتا ہے‘ جس کے ذریعے روزمرہ کے امور کی انجام دہی سے لیکر حکومتی خدمات تک رہنمائی‘ جوابدہی اور کارکردگی کا احتساب ممکن ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کی جدید ترین (ارتقائی) شکل ”ڈیٹا سائنس“ ہے جو ایک بین الضابطہ علمی و تحقیقی موضوعات کا احاطہ کرتا ہے اِس میں سائنسی طریقوں‘ اِن پر عمل درآمد‘ الگورتھم (ہدایات) کے ذریعے اہداف کا تعین‘ مختلف منطقی طریقوں کے ذریعے کسی ایک ہی صورتحال کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جاتا ہے جسکی بنیاد ساختی اور غیر ساختی کوائف (ڈیٹا) پر ہوتی ہے اِس ڈیٹا  سے علم اخذ کیا جاتا ہے یعنی ایک ایسے نتیجے پر پہنچا جاتا ہے جو بیک وقت کئی پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے جامع حل پیش کر رہا ہوتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ اِس پورے عمل کی بنیاد اُن کوائف کی درستگی پر منحصر ہوتی ہے جس کیلئے ایک سے زیادہ زاویوں سے کسی ایک صورتحال یا صورت احوال کا جائزہ لیا جاتا ہے‘اگر اعدادوشمار درست ہونگے تو ’ڈیٹا سائنس‘ کی مدد سے مصنوعی ذہانت  کے اطلاق سے کسی درست نتیجے یا پائیدار و جامع حل تک پہنچا جا سکتا ہے لیکن اگر اعدادوشمار ہی غلط ہوں یا اُنکی درستگی میں دو چار فیصد سے زائد کی غلطی ہو تو ایسی صورت میں دریافت (اخذ) ہونیوالا حل بھی کسی مسئلے کا حل ثابت نہیں ہوگا‘ اِس بات کو ایک مثال سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے؛ مثال کے طور پر اگر حکومت کسی شہر یا علاقے میں رہنے والوں کیلئے پانی کی فراہمی کا بندوبست کرنا چاہے تو اِس کیلئے علاقے کا کل رقبہ‘ آبی ذخیرے سے فاصلے‘ پانی کی تقسیم کا مربوط ترسیلی نظام‘ آبادی (مردم و خانہ شماری) کے درست کوائف بمعہ محل وقوع اور سالانہ آبادی بڑھنے کی شرح جیسے الگ الگ کوائف درکار ہونگے‘ اِن کوائف کو جمع کرنے کے بعد عالمی معیار کے مطابق یومیہ پانی کی ضرورت (فی کس) کا تعین کیا جائیگا اور مصنوعی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے مستقبل کی ضروریات کو بھی دیکھا جائیگا کہ جس پانی کے ذخیرے سے استفادہ کیا جا رہا ہے وہ کس قدر قابل اعتماد ہے‘ آئندہ کتنے برس  کارآمد رہیگا‘اُس پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کس قدر مرتب ہونگے لیکن اگر بنیادی معلومات اکٹھا کرنے میں خاطرخواہ محنت و سنجیدگی سے کام نہ لیا جائے تو پھر حال اور مستقبل کی ضروریات کا تعین بھی ممکن نہیں گا‘ نتیجہ یہ ہوگا کہ پانی کی فراہمی کے منصوبے پر کروڑوں یا اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی یہ آبادی کی ضروریات کیلئے کافی نہیں ہوگا جیسا کہ ہمیں پشاور کے مختلف حصوں میں دکھائی دیتا ہے کہ جہاں فی یونین کونسل حکومتی اعدادوشمار میں بیان کردہ آبادی کے تناسب سے زیادہ مقدار میں پانی فراہم کیا جا رہا ہے لیکن اِسکے باوجود موسم گرما ہو یا سرما پانی کی قلت برقرار رہتی ہے‘پانی کی فراہمی کے ساتھ نکاسی آب کی ضروریات کا تعین بھی ’ڈیٹا سائنس‘ کی مدد سے بآسانی ممکن ہے اور اِسی ’ڈیٹا سائنس‘ کی مدد سے ترقی یافتہ اور ٹیکنالوجی کے معاملے میں باشعور ممالک میں عام انتخابات کا انعقاد الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے کر رہے ہیں‘ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہر دوسرے شخص کی جیب میں سمارٹ فون ہے‘ لیکن جب بات قومی فیصلہ سازی میں ٹیکنالوجی پر اعتماد کی آتی ہے تو اِنہیں سمجھ نہیں آتی کہ تفریح طبع کے علاؤہ بھی ٹیکنالوجی سے سنجیدہ خدمت لی جا سکتی ہے! ٹیکنالوجی کے بارے میں عوامی رائے اور شعور کو ایک درجہ بلند کرنے میں درسی و تدریسی نظام کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔