پھر نہیں یاد کہ کیا یاد آیا

یہ شہر کا بڑا اور معروف میڈیسن سٹور تھا ہم دوا خریدنے آئے تھے‘ جیب ٹٹولی تو دوا کا نسخہ جو ڈاکٹر نے دیا موجود نہ تھا‘دوسری جیبوں میں بھی ہاتھ نیچے تک لمبا کیا مگر مجال ہے کہ وہ پرچہ کہیں ہاتھ تلے آتا ہو‘اُدھر بائیک میں پٹرول بھی نہیں تھا کہ گھر جا کر دوبارہ آتے کیونکہ راستہ طویل تھا گھر تک گئے تو دوا کا نسخہ مل جائے گا مگر واپس اس دواؤں کی بڑی دکان تک پہنچنا مشکل ہو جائے گا‘سمجھ میں نہ آیا کہ اب کیا کریں۔ کاؤنٹر پر ایک چھوڑ سات سات لڑکے کام کر رہے تھے اور رش بھی تھا ہمارا نمبرآیا تو انہوں نے پوچھا جی کیا چاہئے میں نے کہا یاروہ دواجو میں آپ سے لے گیاتھا میرا خیال ہے دس دن پہلے کی بات ہے وہ چاہئے‘آپ کو تو یاد ہوگاکیونکہ میں تو یہاں آتا رہتا ہوں‘انہوں نے بے پروائی سے پوچھا نام کیا ہے‘میں نے اپنا نام بتلا دیا‘انہوں نے کاندھے اوپرنیچے کر کے دوبارہ پوچھا سر دوا کا نام پوچھ رہا ہوں‘میں نے کہا نام نہیں یاد آرہا ہے‘ہاں اتنا یاد ہے پان سو روپے کا پلتا تھا انہوں نے کہا ایسے تو معلوم نہیں ہوگا اچانک مجھے اس دوا کی ڈبیا کی شکل یاد آئی میں نے کہا ہاں ہاں گلابی رنگ کی بڑی سی ڈبیا تھی انہوں نے مجھے اگنور کر کے دوسرے گاہک سے بات کرنے کی کوشش کی تو مجھے پھر ایک اور نشانی یاد آگئی‘میرا خیال ہے اس کا نام انگریزی کے حرف”کے“ سے شروع ہو تا ہے انہوں نے بیزاری سے منہ ٹیڑھا کر کے کہا اس طرح معلوم نہیں ہوتا‘میں نے کہا یار وہ بلڈ پریشر کی تھی اور اس کا فارمولا مجھے یاد آگیا ہے وہ کہنے لگا محترم نام بتلائیں‘ایسے نہیں ہوتا‘فارمولا تو بتلا دیا مگر غلط دوا لے لیں گے اور الٹا جان پر بن آئیگی میں گھبرایا کہ ہم تو جان بچانے کی دوا لینے آئے ہیں جان گنوانے کی دوا تو نہیں چاہئے اچانک یاد آیااس ڈبی کی پکچر میرے موبائل میں موجود ہے‘خدا کا شکر ہوا کہ پٹرول کا خرچہ بچ گیا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ میں نے جب یہی دوا خریدی تھی تو گھر جا کر اس کی قیمت پڑھنے کی کوشش کی اور ساتھ اس کی ایکسپائری تاریخ بھی جاننے کی تمنا کی تھی‘ عینک ڈھونڈی تو عینک نہ ملی مجھے اپنی عادت کے مطابق پڑھنے کیلئے عینک کے استعمال کے برعکس اپنی جیب سے ٹچ موبائل نکالنا پڑا تھا اور اس دوا کی ڈبی کی تصویر موبائل میں اتار لی  پھر آرام سے اس تصویر کو دو انگلیوں کی مدد سے حد سے زیادہ بڑا کر کے دیکھا تھا‘قیمت دیکھی ہاں واقعی دکاندار نے ڈسکاؤنٹ کیاتھا اور کچھ روپے چھوڑ دیئے تھے پھر آخری تاریخِ استعمال بھی دیکھ لی تھی‘کاؤنٹر کے پاس جھٹ سے موبائل نکالا اور ان کو وہ تصویر دکھا دی‘پھر انہوں نے جواب میں ایک لفظ بھی نہ بولا‘اب جو بحث میں کر رہاتھا اس کی تو بالکل بھی ضرورت ہی نہ پڑی‘ میں سوچنے لگا کہ موبائل نے کام کتنا آسان کردیا ہے‘پھرعقل کے مقابلے میں بھینس کیوں نہ بڑی ہو کہ آسان تھا گھر فون کر کے وٹس ایپ پر اس ڈبی کی سکرین شارٹ والی پکچر وہیں کاؤنٹر پر منگوا لیتے اتنا دماغ ہوتا تو کیا جاتا‘ بعض بیماریوں کی دوائیں بہت مہنگی ہوتی ہیں‘اب توبہ توبہ دوا خرید کر کھاؤ تو ایک وقت کی روٹی نہ کھاؤ اور دوا نہ کھاؤ یا کھانا نہیں کھاؤ تو جان سے جاؤ‘ دوا نہ لو تو جان پر بن آتی ہے اور دوائی خرید لو تو بال بچوں کی جان پر بن آتی ہے کیونکہ روٹیاں بھی تو لانا ہیں او رسبزی بھی تو خریدنا ہے ساتھ گھی ہے‘سلینڈر میں گیس نہیں ہے پھر کیا موجود ہے کیا کہوں مگر پھربھی شکر ہے کہ زندہ تو ہیں جیسی تیسی گزر رہی ہے‘ ہر ایک کی گزر ہی جاتی ہے مگر آخر ان حالات میں کہ ملک کا بچہ بچہ پریشانی کاشکارہے سوچتا ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ آخر ہوگا تو کیا؟کیونکہ بخار کی گولیاں جو بازار میں نایاب ہو چکی تھیں۔آخر اس کمپنی کے بڑوں کی میٹنگ سرکاری لوگوں کے ساتھ ہوئی اور انہوں نے سرکاری لوگوں کوآخر کار مجبور کر دیا کہ وہ گولیاں مہنگی کرکے بیچنے کی منظوری دیں۔ سو سرکاری لوگوں نے ان کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے‘ اب یہی حال رہا کہ جب بخار کی معمولی گولی کی قیمت بڑھ گئی تو وہ چھ سو روپے والی ہمارے بلڈ پریشر کی گولی کیوں نہ اور مہنگی ہوگی‘بندہ اب دوائیں خریدے کہ بال بچوں کے لئے روٹی کا بندوبست کرے‘جب معاشرتی حالات ایسے برے ہوں تو ایک دن یہ نہ آئے کہ کوئی ہم سے ہمارا نام پوچھے تو ہمیں وہ بھی بھول چکا ہواور اپنے ہی گھر کا پتا تک یاد نہ رہے۔