پاکستان کی خارجہ پالیسی ’عالمی سپر طاقتوں‘ کی آپسی رسہ کشی کے باعث عدم توازن کا شکار ہو سکتی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ امریکہ چین اور روس کی دشمنی کے درمیان پاکستان کو اپنی پالیسی کی راہ کس طرح متعین کرنی چاہئے؟ تیرہ اکتوبر دوہزاربائیس کے روز امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی کی کانگریشنل کمپین کمیٹی کے استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے صدر جو بائیڈن کے پاکستان کے ’سب سے خطرناک ملک‘ ہونے کے بارے میں بیان پاکستان کے مؤقف کو بیان کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پندرہ اکتوبر کے روز وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کرین جین پیئر نے کہا کہ صدر بائیڈن محفوظ اور خوشحال پاکستان کو امریکی مفادات کے لئے اہم سمجھتے ہیں۔ ادھر پاکستان نے اسلام آباد میں امریکی سفیر سے امریکی صدر کے بیان پر احتجاج کیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے امریکی صدر کے ریمارکس کو مسترد کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان‘ جوہری صلاحیت رکھنے والی ایک ذمہ دار ریاست ہے۔ اِسی طرح پاک فوج کے سربراہ کے حالیہ دورہئ امریکہ کے دوران ہوئی ملاقاتوں میں بھی یہی موضوع زیربحث رہا لیکن امریکیوں کی پاکستان کے بارے میں رائے تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ صدر بائیڈن کے بیان کی وضاحت میں پاکستان کی تسلی تشفی کے لئے نئی باتیں کہی گئی ہیں لیکن امریکہ کی سیاسی و فوجی قیادت پاکستان کے بارے میں جو منفی تاثر رکھتی ہے اُس کی وجہ سے دوطرفہ مضبوط تعلقات پروان نہیں چڑھ سکتے کیونکہ تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ امریکی صدر کے پاکستان سے متعلق بیان کی ملک کی سبھی سیاسی جماعتوں نے مذمت کی ہے جن میں تحریک انصاف بھی شامل ہے۔ چیئرمین عمران خان نے مذکورہ ریمارکس کی مذمت کرتے ہوئے انہیں صدر بائیڈن کا ”غیر ضروری نتیجہئ خیال“ قرار دیا۔ اِس سلسلے میں عمران خان نے پندرہ اکتوبر کو ایک ٹوئیٹر پیغام میں کہا کہ ”امریکہ کے برعکس جو دنیا بھر میں جنگوں میں ملوث ہے‘ پاکستان نے کسی بھی ملک کے خلاف جارحیت کا مظاہرہ نہیں کیا اور بالخصوص جوہری صلاحیت حاصل کرنے کے بعد سے پاکستان انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔“ امریکی صدر کے پاکستان سے متعلق بیان کے بعد خارجہ پالیسی کے حوالے سے دوسری منفی پیشرفت یہ سامنے آئی کہ افغانستان کے لئے امریکہ کے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ نے ’وائس آف امریکہ‘ کی اُردو سروس (گزشتہ ہفتے کے آخر میں نشر ہونے والے ایک پروگرام) میں دیئے گئے انٹرویو کے دوران اس خیال کو مسترد کر دیا کہ امریکہ کو افغانستان کے طالبان حکمرانوں سے ساتھ بات چیت (مذاکرات) کے لئے پاکستان کی ضرورت ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ”مجھے نہیں لگتا کہ (طالبان سے مذاکرات کے لئے) ہم (امریکہ کو کسی) تیسرے ملک کی ضرورت ہے۔“ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکہ کو افغانستان تک پہنچنے کے لئے پاکستان کی فضائی حدود کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ مذکورہ دونوں بیانات سے عیاں ہے کہ امریکہ کے لئے پاکستان کی اہمیت و ضرورت کلیدی نہیں رہی اور وہ پاکستان کو اپنی قومی سلامتی کا شریک تو سمجھتا ہے لیکن پاکستان پر انحصار نہیں کر رہا۔ حالیہ سیلاب سے متاثرین کی امداد و بحالی کے لئے امریکہ قریب ایک ارب (97ملین) ڈالر بطور امداد دینے کا اعلان کر چکا ہے تاہم اِس امداد کا بڑا حصہ امریکہ کے اپنے امدادی ادارے ’یو ایس ایڈ‘ اپنی ترجیحات کے مطابق خرچ کرے گا اُور اِس امداد سے استفادہ کرنے پر حکومت پاکستان کا زیادہ کنٹرول نہیں ہوگا۔ امریکہ نے پاکستان کو ’فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس (FATF)‘ کی ’گرے لسٹ‘ سے نکلنے میں جو مدد دی ہے اُور جس طرح پاکستان کے ’ایف سولہ‘ نامی جنگی طیاروں کی مرمت پر آمادگی کا اظہار کیا ہے‘ یہ دونوں غیرمعمولی اقدامات ہیں تاہم پاکستان کے بارے میں امریکی فیصلہ سازوں کی رائے میں تبدیلی کا باعث نہیں اُور امریکہ کے ذہن میں پاکستان سے متعلق ابہام پائے جاتے ہیں جس کی بنیادی وجہ ’چین سے قربت‘ ہے۔ امریکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) منصوبے اُور چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو (BRI)‘ کو کامیاب نہیں دیکھنا چاہتا جبکہ پاکستان کے لئے چین کے ساتھ دوستی اور مذکورہ دونوں منصوبے کلیدی اہمیت کے حامل ہیں‘ جن پر اگرچہ کام کی رفتار سست ہے لیکن پاکستان بنا تصادم درمیانی راستہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ لیکن امریکہ جس بھارت کو پاکستان کے مقابلے اکسا رہا ہے اور اُسے مضبوط کر رہا ہے وہ اِس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے علاؤہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے امریکہ کے لئے درد سر ہے۔ خارجہ پالیسی کے ماہرین کا اتفاق ہے کہ پاکستان کو مستقبل اور مستقل تغیرات اور ضروریات کے لئے اپنی خارجہ پالیسی ترجیحات پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے اور امریکہ کی بجائے چین و روس کے ساتھ علاقائی ترقی کے لئے تعاون کا حامی رہنا چاہئے‘ جو قریب 70 سالہ غلطیوں کا ازالہ ثابت ہو سکتا ہے اور یہی درست سمت اور مثبت راستہ بھی ہے۔اس وقت حکومت جس نہج میں خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے وہ یقینا خوش آئند ہے اور عالمی برادری میں پاکستان کی اہمیت اور اس کے سٹریٹیجک محل وقوع کا تقاضہ ہے کہ غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی پر عمل کیا جائے۔