اوّل تو ڈاکٹر صاحب نے مریضہ کا بلڈ پریشر چیک کیا۔پھر وزن چیک کرنے والی مشین پر ان کو کھڑے ہونے کو کہا۔جب وزن معلوم ہوگیا تو شاید ان کو مریضہ کی دل دھڑکی کی بیماری کی وجہ سمجھ میں آگئی ہو۔انھوں نے فرمایا بی بی اپنا وزن کم کریں۔ اس پرمریضہ گویاہوئیں نہیں ڈاکٹر صاحب یہ وزن زیادہ نہیں صرف سوجن ہے جو جسم پر پھیلی ہوئی ہے۔اس پر ان کے معالج نے ان کے ساتھ بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اصل میں زیادہ خوراکی اور وزن کا بڑھ جانا بھی بہت سی بیماریوں کو ناحق کی دعوت دیتا ہے۔بلڈ پریشر اور شوگر تو کہیں گئے نہیں۔ پھر اس پرمفت میں دل کی بیماری بھی جیسے خرید کو اختیار کرنا ہوا۔ شادی بیاہوں میں تو ہم جیسے مریضوں کی جیسے سن لی جاتی ہے۔ کھانے پینے اور وہ بھی نت نئے اور مختلف اقسام کے ہوں اور کہیں چٹ پٹے کہیں لذیذ ہوں اور کہیں چاولوں کی سوندھی سوندھی خوشبو اور دوسری میزوں پر کھیر اور جیلی اور فیرنی کے جلوے ہوں کہیں حلوے ہوں تو کس نابکار کا دل نہ چاہے گا کہ ان کھانوں کی طرف ہاتھ بڑھائے۔ اگر کسی کو بی پی نے آن گھیرا ہے تو وہ اس موقع پرجان کر بھی سب کچھ بھلا دیتا ہے۔پھر کسی کو شوگر کی بیماری نے دبوچ رکھاہو تو اس کے پاس آسان علاج ہوتا ہے انسولین روزمرہ سے زیادہ لگا لے گا۔ اس کے من کو تسلی ہو جائے گی۔ ویسے یہ مریض ڈاکٹر صاحبان کی سنتے تو ہیں مگر اس پرعمل درآمد کرنے کو دل جو نہیں چاہتا۔ سگریٹ پینے والے اپنا باقاعدگی سے سگریٹ پیتے ہیں۔ جب کہو کہ یار کیا کر رہے ہوں بلڈ پریشر ہے تم کو تین بار تو سی سی یو سے زندہ و سلامت لوٹے ہو کہیں پھرکوئی مصیبت نہ ڈھونڈ لو۔ دس پیتے ہو نو پی لو آہستہ آہستہ چھوڑو۔ اس پر وہ سگریٹ کا پہلے سے زیادہ گہرا کش لے کر جیسے نصیحت کرنے والے کو جلاتا ہو بلکہ سگریٹ کی راکھ پھینکنے کو سگریٹ والے ہاتھ سے چٹکی بجاتا ہے اور کچھ زیادہ ہی زور سے بجا کر کہتا ہے کہ یار جو رات اندر وہ باہر نہیں ہیں۔ آج مرے کل دوسرا دن۔ زندگی کو انجوائے کرو کچھ بھی نہیں ہوتا۔اپنی زندگی جی لو۔ جو کھانے پینے میں باجود بیماریوں کے احتیاط نہیں کرتے وہ بھی اگر نصیحت کرو تو کہتے ہیں ارے جان بناؤ یار کل کس نے دیکھا ہے۔اپنے ہی ہمسایہ کو نہیں دیکھتے کب سے دل کا بیمار ہے اور شوگر بھی ساتھ ہے مگر سگریٹ پیتا ہے اور بیس سالوں سے پی رہا ہے۔جو دل میں آئے کھاتا ہے او رپھر اس پر فخر کرتا ہے کہ مجھے تو بلڈ پریشر ہے۔مگر میں پرہیز کا قائل نہیں ہوں۔اصل میں بعض لوگوں کو یہ بیماری بھی ہوتی ہے کہ کہتے ہیں کہ مجھے تو کوئی بیماری نہیں۔حالانکہ پہلے ان کو سٹروک ہو چکاہوتا ہے۔یعنی فالج نے ان کے جسم کی وکٹ پر ایک ناکام چوکا لگا رکھا ہوتا ہے۔ وہ ہوتے صحت مند ہیں مگر ڈاکٹری دواؤں پر حد سے زیادہ اعتماد کر کے میڈیسن کے استعمال کے بعد پُراعتماد ہو جاتے ہیں اور خوب کھاتے پیتے ہیں۔ کھاؤ پیؤ مگر احتیاط سے۔ گاڑی چلاؤ مگر احتیاط سے۔اگر آپ کے ہاتھ میں گاڑی کا سٹیرنگ ہے تو مطلب یہ نہیں کہ آگے آنے والوں کی پروا نہ ہو اور ہر ایک روندتے چلے جاؤ۔ پیٹ اگر ہے اور سامنے کھانے چنے ہوئے ہیں تو احتیاط کر کے کھانے میں کیا حرج ہے۔ شیخ سعدی نے اپنی ایک حکایت میں دو شعر لکھ رکھے ہیں کہ کھانے کھانا اصل میں جینے اور ذکر اذکار کرنے کے لئے ہے۔ مگر تو سمجھتا ہے کہ زندگی کھانے کے لئے ہے۔اگر بد پرہیزی کرنے والے کو دوست یار رشتہ دار مشورہ دیں اوروہ بھی عین ولیمے کے دوران میں کسی ہوٹل کے ہال میں جہاں کھانوں کی بہار کی اپنی سی خوشبو نے پورے ہال کو خوشبودار بنا رکھا ہو۔ ا س موقع پر مریض اپنے دوسرے دوست کو اپنی کنپٹی پہ انگلی گھما تے ہوئے چھپاکر اشارہ کرتا ہے کہ یہ نصیحت کرنے والا دماغی طور پر درست نہیں ہے سنک گیاہے۔مشورہ تو کوئی مانتانہیں ہے۔کیونکہ اس کا اعتماد دواؤں نے بحال کر رکھا ہے تاہم وہ یہ نہیں سوچتے کہ وقت گزرنے کے ساتھ دواؤں کے اثرات بھی کمزور پڑجاتے ہیں۔کیونکہ جراثیموں کو معلوم ہو جاتا ہے اور ان میں اپنے خلاف دفاع کی قوت اور مضبوط ہوجاتی ہے۔