برازیل میں صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں کل ووٹ ڈالے گئے۔صدارتی انتخابات میں موجودہ صدر جیئر بولسونارو اور سابق صدر لولا ڈی سلوا کے درمیان دوسرے مرحلے میں مقابلہ ہے۔انتخابی جائزوں کے مطابق ڈی سلوا کو پانچ سے آٹھ فیصد برتری حاصل ہے اور ان کی جیت کی پیش گوئی کی جارہی ہے مگر پچھلے انتخابات میں بھی بولسونارو نے انتخابی جائزوں کے برعکس زیادہ ووٹ لیے تھے اور اب بھی انتخابات کا پلڑا کسی بھی جانب جھک سکتا ہے۔دو اکتوبر کو منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کئی امیدوار تھے مگر ان میں سے کوئی کامیابی کیلئے درکار پچاس فیصد ووٹ نہیں لے سکا۔ موجودہ صدر جیئر بولسونارو اور سابق صدر لولا ڈی سلوا 30 اکتوبر کو باالترتیب 43.3 فیصد اور 48.3 فیصد ووٹ ملے تھے۔سرکاری نتائج کا اعلان انیس دسمبر کو ہوگا مگر آج حتمی غیر سرکاری نتائج سامنے آجائیں گے۔ ان انتخابات سے ملک کا صدر، نائب صدر، گورنرز، سینیٹرز اور وفاقی اور ریاستی اسمبلیوں کے ارکان بھی منتخب کیے جائیں گے۔ 15 کروڑ 64 لاکھ افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔
دونوں سیاسی حریف غیر جانب دار ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے تگ و دو کررہے ہیں۔ انتخابی مہم اور نشری مباحثوں کے دوران ایک دوسرے کے کردار، قابلیت، دعوؤں اور وعدوں پر سخت حملے کیے گئے۔ بولسونارو نے ڈی سلوا پر بدعنوانی جب کہ ڈی سلوا نے اس پر کورونا وائرس سے سنگین غفلت برتنے کا الزام لگایا۔واضح رہے لولا ڈی سلوا بائیں بازو اور صدر بولسونارو انتہائی دائیں بازوسے تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں کے درمیان سخت رقابت اور کشیدگی کے ماحول میں انتخابی مہم جاری رہی ہے۔مگر ان انتخابات میں صرف دائیں اور بائیں بازو کا مقابلہ نہیں ہے بلکہ اس کے نتائج امیزون کے جنگلات، موسمیاتی تبدیلی، ملک میں جمہوریت، امریکہ سے تعلقات اور اس کی معیشت کی بحالی کے لیے بھی اہم ہیں۔ ملک میں جمہوریت اور سیاسی نظام بارے عوامی یقین بھی متزلزل ہوچکی ہے کیوں کہ بولسونارو برسوں سے برازیل کے جمہوری اداروں، عدلیہ، صحافیوں، ماحولیات پر کام کرنے والوں اور انتخابی نظام بارے بنیاد الزامات سے کروڑوں برازیلی باشندوں کو متنفر کرچکے ہیں۔
بولسونارو نجکاری، کان کنی، آبادکاری اور سخت ڈسپلن کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ ڈی سلوا موسمیاتی تبدیلی، جنگلات کے تحفظ، امیزون میں کان کنی اور جنگلات کی کٹائی پر پابندی، عوای فلاح، غربت کے خاتمے اور آزادیوں کی ترویج پر زور دیتے رہے ہیں۔اب تک رائے عامہ کے دو جائزوں میں ڈی سلوا کو پانچ سے آٹھ فیصد کی برتری حاصل تھی مگر پچھلے روز کے ایک سروے کے مطابق یہ برتری چار فیصد پر آگئی ہے۔ برازیل کے انتخابی حکام اور ملک کی اعلی انتخابی عدالت، جو سپریم کورٹ کے ججز پر مشتمل ہوتا ہے، کو توقع ہے کہ بولسو نارو انتخابات ہار گئے تو وہ نتائج تسلیم نہیں کریں گے اور وہ انتخابی نتائج کے خلاف بولسو نارو کے ممکنہ مقدمے اور اشتعال انگیز احتجاج کیلئے چوکس ہیں۔بولسونارو بغیر کسی ثبوت کے الزام لگاتے رہے ہیں کہ برازیل کا انتخابی نظام دھوکے اور دھاندلی سے عبارت ہے۔ اس کے بیٹے نے کہا ہے کہ اس کا باپ ملکی تاریخ کے سب سے بڑے انتخابی دھوکے کا شکار رہا ہے۔ اس نے اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ وہ پولنگ سٹیشنوں کے آس پاس بڑی تعداد میں موجود رہیں تاکہ انتخابات میں ان کے خلاف دھاندلی نہ کی جاسکے۔
دوسری طرف لولا ڈی سلوا نے بھی اپنے حامیوں اور عوام سے کہا ہے کہ وہ بڑی تعداد میں ووٹ دینے کیلئے باہر آئیں اور بولسو نارو کی فسطائیت پسندی کو شکست دیں۔بدھ کو اعلی انتخابی عدالت نے بولسونارو کی ایک شکایت بلا ثبوت قرار دیتے ہوئے مسترد کی اور برازیل کی اعلیٰ عدالت کو ہدایت کی کہ وہ بولسونارو کی انتخابی مہم کا بغور جائزہ لے کہ کہیں وہ انتخابات کو درہم برہم کرنے کیلئے سازباز تو نہیں کررہے۔لولا 2003 سے 2010 تک برازیل کے صدر تھے۔ ان کی عوام دوست فلاحی پروگرام کی وجہ سے برازیل کے عام لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہوئی۔ واضح رہے انہیں 2017 میں بدعنوانی کے ایک مقدمے میں عدالت سے سزا ہوئی تھی مگر برازیل کی سپریم کورٹ نے پچھلے سال ان کے خلاف کئی فوجداری نوعیت کے مقدمات خارج کر دئیے اور انہیں دوبارہ صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت دی۔جبکہ بولسونارو، جو ایک سابق فوجی کیپٹن ہیں جنہیں شعلہ بیانی، الزام تراشی اور جوشیلی شخصیت کے باعث برازیل کا ٹرمپ کہا جاتا ہے، سابق امریکی صدر ٹرمپ کے دوست بولسنارو نے بھی ابھی سے انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کرنے کے اشارے دئیے ہیں۔
اگر برازیل کے انتخابات میں بائیں بازو کے ڈی سلوا صدر منتخب ہوجاتے ہیں تو یہ لاطینی امریکہ میں کچھ عرصے سے جاری رجحان کے مطابق ہوگا۔ واضح رہے لاطینی امریکہ کے مختلف ممالک میں بائیں بازو کی پارٹیاں مضبوط ہو گئی ہیں۔ میکسیکو، بولیویا، پیرو، ہونڈوراس اور چلی میں ان کی حکومتیں بن چکی ہیں اور شاید جلد ہی کولمبیا اور برازیل میں بھی ایسا ہوگا۔ ابھی ایل سلواڈور، یوراگوئے اور ایکواڈور تک یہ رجحان نہیں پھیلا مگر لاطینی امریکہ پہلے کبھی اتنا بائیں بازو اور امریکہ مخالف حکومتوں کے زیر اثر نہیں رہا۔ اس رجحان سے چین خوش ہوگا مگر امریکہ کے لئے وینزویلا، نکاراگوا اور کیوبا میں بائیں بازو کی حکومتوں سمیت ان سب سے معاملہ کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔۔واضح رہے برازیل کی معیشت کچھ عرصہ قبل دنیا کی چھٹی بڑی معیشت تھی۔ یہ خطے کے مالدار ممالک میں شامل تھا مگر پچھلی دہائی سے اس کی معیشت بوجوہ مشکلات کا شکار ہے اور بدعنوانی میں اضافے، کورونا وائرس اور کساد بازاری کے باعث اس کے معاشی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔