پاکستان کرکٹ ٹیم کا عالمی ٹی ٹونٹی مقابلوں میں ’شرمناک کارکردگی‘ ناقابل یقین ہے۔ اگرچہ کرکٹ اتفاقیہ کھیل بھی ہے لیکن پاکستان کے کھلاڑی (ٹیم گرین) جس طرح پے درے پے مقابلوں میں ڈھیر ہوئی اُسے دیکھتے ہوئے کھلاڑیوں کا اپنا قصور زیادہ دکھائی دے رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے میلبورن کرکٹ گراؤنڈ پر بھارت کو بظاہر جیتے ہوئے میچ کو آخری گیند پر بھارت کی جھولی میں ڈالنے کے بعد سے پاکستانی کھلاڑی دباؤ میں ہیں اور یہی وجہ تھی کہ زمبابوے جیسی آسان ترین ٹیم اور موزوں و جاندار وکٹ پر بھی صرف 130 رنز کا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا! لمحہئ فکریہ ہے کہ پاکستان کا ’رن ریٹ‘ بھی انتہائی مایوس کن (ناقص) ہے‘ جسے بڑھانے کی بہت ضرورت ہے لیکن اس کے بجائے پاکستان کی بیٹنگ لائن ’فلاپ‘ رہی جس سے زمبابوے کو سنسنی خیز انداز میں مقابلہ صرف ایک رن سے جیتنے کا موقع ملا اور یقینا یہ زمبابوے کے لئے تاریخی کامیابی ہے۔پاکستان کرکٹ ٹیم ٹی ٹونٹی مقابلوں سے قبل جس کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی تھی وہ رفتہ رفتہ ختم ہوتی گئی۔ پرتھ کے اوپٹس سٹیڈیم کی وکٹ میں کوئی ایسا مسئلہ نہیں تھا کہ وہ صرف پاکستان کے کھیل کو خراب کرتا رہا۔
زمبابوے کی ٹیم نے زیادہ اچھی کرکٹ بھی نہیں کھیلی لیکن بنیادی بات یہ تھی کہ پاکستان نے حد سے زیادہ خراب کھیل کا مظاہرہ کیا۔ اصولاً پاکستان ٹیم کو زمبابوے کے خلاف ایسی کامیابی حاصل کرنا چاہئے تھی جس سے اُسے انتہائی اہم 2 پوائنٹس کے علاوہ رن ریٹ میں بہتری بھی حاصل ہوتی لیکن پاکستان ٹیم کے بُرے دن چل رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں ہونے والے ایشیا کپ میں سری لنکا کے خلاف دوہری شکست ان میں سے ایک تھی۔ پھر ہوم گراؤنڈز پر برطانیہ کے خلاف ٹی ٹونٹی سیریز میں شکست ہوئی۔ ان دونوں مقابلوں میں خود کو چیمپئن ٹیم تصور کرنے والے کھلاڑی مطلوبہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے۔ یہ بالکل واضح تھا کہ زیادہ تر پاکستانی کھلاڑیوں کے پاس مطلوبہ فٹنس لیول نہیں اور اس فٹنس کی کمی کی وجہ سے پاکستان کو ہر مقابلے میں شکست کی صورت نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔پاکستان کی ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ (ٹائٹل مہم) کے لئے شاید اس سے بھی زیادہ نقصان دہ ٹیم کے تھنک ٹینک کی جانب سے قابل اعتراض فیصلہ سازی ہے جو ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کی برتری میں اچھی منصوبہ بندی کرنے میں ناکام رہے جس کا مطلب ہے کہ آؤٹ آف فارم حیدر علی جیسے کھلاڑی بغیر کسی قابل قدر ٹریک ریکارڈ کے لائن اپ کا حصہ بنا دیئے گئے۔
ایک اور ناقص کال پلیئنگ الیون میں واپسی کے تیز گیند باز شاہین شاہ آفریدی کی تھی‘ جسے ابھی آرام کی ضرورت تھی۔ آفریدی حال ہی میں گھٹنے کی انجری سے صحت یاب ہوا ہے اور ابھی نصف فٹ دکھائی دے رہا ہے اور اسی لئے وہ بھارت اور زمبابوے کے خلاف کھیلوں میں بہترین (پوری) کارکردگی مظاہرہ کرنے میں ناکام رہا۔ اس ماہ کے شروع میں جب پاکستان ٹیم آسٹریلیا پہنچی تو وہ شاندار اوپنرز بابر اعظم اور رضوان اُمیدوں کا مرکز تھے لیکن اِن دونوں کھلاڑیوں (جوڑی) نے پاکستان کے لئے ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں زیادہ رنز بنانے میں دلچسپی نہیں لی اور دیگر مقابلوں کی طرح ورلڈ کپ میں بھی کلک کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ تصور کریں کہ بابر اعظم نے گزشتہ چھ ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں مجموعی طور پر صرف 68 رنز بنائے ہیں۔
بابر اور رضوان دونوں ہی دو میچوں میں ناکام رہے اور اگر پاکستان کو ٹی ٹونٹی کی گروپ درجہ بندی (رینکنگ) کی آخری چار ٹیموں میں میں جگہ بنانے کا کوئی حقیقت پسندانہ موقع ملنا ہے تو انہیں آنے والے (باقی ماندہ) میچوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اگر پاکستان اپنے باقی تمام میچ جیت بھی لیتا ہے تو اسے دیگر ٹیموں کی خراب کارکردگی کی صورت مدد کی ضرورت ہوگی۔ مثال کے طور پر اگر پاکستان کو آگے بڑھنا اور ٹی ٹونٹی مقابلوں میں باقی رہنا ہے تو اِسے آئندہ مقابلوں بالخصوص جنوبی افریقہ کو ہرانا ہوگا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کے حوالے سے بہت سارے اگر مگر اور لیکن ہیں اور اِن سب کو غلط ثابت کرنے کے لئے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے غلط آغاز کی طرح اِس کا غلط اختتام نہیں ہونا چاہئے۔ شائقین کرکٹ دل تھام رکھیں کیونکہ خدشہ جو کہ یقین کی حدوں کو چھو رہا ہے یہ ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو تاریخ کی بدترین کارکردگی کا خمیازہ بھگتتے ہوئے مقابلے سے الگ ہونے جیسی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔