آخری تاریخیں 

بعض نیک دل لوگوں کو آخری تاریخیں کچھ نہیں کہہ سکتیں۔ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتیں۔ کیونکہ وہ مہینہ وار تنخواہ کے ملازم تو ہوتے ہیں مگر اپنے گھریلو بجٹ کو اس طرح ترتیب سے رکھتے ہیں کہ ان کو دیکھ کر رشک آتا ہے کہ کاش یہ صلاحیت ہم میں بھی موجود ہوتی۔ وہ اس لئے کہ وہ اگر بٹوہ نکالیں او رپھر بعض پیارے تو جان بوجھ کر سرِ محفل اپنا پرس نکال کر کسی ضرورت کے بہانے پھرولتے ہیں تو ان کے بٹوے جیسے اکڑے ہوئے نوٹوں کے تابوت بنے ہوتے ہیں۔نئے نویلے نوٹ جو مہینہ گزر جانے کے باجود ابھی قابلِ استعمال نہیں ہوئے ہوتے۔پھر امکان تو بتلاتا ہے کہ یہ نوٹ مہینہ وار بچت کے کھاتے میں انٹر ہو کر ان کے بقچہ کو اور بھاری کر دیں گے جو گھر میں کہیں سنبھال کررکھا ہو۔ ویسے اچھی عادات ہیں۔بچت اور پھر بجٹ کو آخری تاریخ تک نبھا لے جانا او رپھر اس میں سے بھی کچھ بچا لے جانا پھر اس کو مجموعی خزانے میں جمع کر کے اپنے بینک بیلنس کو بھاری بھرکم کر دینا۔ شوق بھی عجیب چیز ہے۔

اب کسی کو بھی کسی چیز کا شوق ہو سکتا ہے۔ان حضرات کو خدا اس سے زیادہ عطا کرے مگر آخری تاریخوں میں جب ان کی جیب سے بٹوہ نکلتا ہے اور اس قریب مہینے کے اختتام پر گل ہوجانے والی شمع کی روشنی کے وقت بھی ان کے ہاتھ کڑکڑاتے ہوئے نوٹوں کو گنتے ہیں تو اچھا لگتا ہے۔مگر بٹوہ کے بھاری ہونے اور دراز اکڑے نوٹوں کے ہوتے سوتے یہ امکان نظر آنے لگتا ہے کہ صاحب خرچے کے وقت پیچھے پیچھے رہ جانے کے بہانے ڈھونڈتے ہوں گے۔وہ اس لئے کہ ہم توکبھی اپنے بجٹ کو آخری تاریخوں تک کھینچ تان کر بھی نہیں لے جا سکے۔ ہم تو شروع کی تاریخوں ہی میں اس کھیل کے میدان میں سنگل سکور کی تاریخوں میں صفر پر آؤٹ ہو جاتے ہیں۔میرا مطلب ہے نہ تو بینک اکاؤنٹ میں کچھ ہوتا ہے اور نہ ہی ہاتھوں میں کوئی اور اثاثہ پایا جاتا ہے۔بلکہ جیب میں بٹوہ تک نہیں ہوتا کہ خالی ہی ہو مگراس سے سنبھالنے کی خواہش تو کم از کم پیدا ہو۔بس جو تلی میں آیا گلی میں کھایا بلکہ ہضم کر لیا اور پھر سے بھوک تازہ ہوگئی۔پھر سے ہتھیلی میں آنے کے انتظار میں ہوتے ہیں۔

سرکاری ملازمین کا یہی حال ہوتا ہے اور بیشتر کا ہوتاہے۔ہاں اس میں زیادہ تر تو مہینہ بھر کے لئے پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں مگر پرائیویٹ اور نجی اداروں کے اہل کارں کے بٹوے اگر خالی ہو جائیں تو ان کے پاس اور طریقے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے بٹوے کو خالی رہنے نہیں دیتے۔ ان کے ہاں بینک اکاؤنٹ بھی خالی نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی اور مسئلہ۔ان کے بینک کریڈٹ کارڈ بھی ہوتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو کریڈٹ کارڈ کا بھرپور استعمال کرکے چوکے چھکے لگاچکے ہوتے ہیں۔وہاں بھی کچھ نہیں بچ پاتا۔الٹا پھر کارڈ کی قسطیں بھی ماہانہ ادا کرتے ہیں۔ پھر ایک تو نہیں پانچ پانچ بینکوں کے کریڈٹ کارڈ ہو ں تو ان کی ماہانہ اقساط کی مد میں بھی بھی ان کے کھیسے سے اچھی خاصی رقم سمیٹ لی جاتی ہے۔جب یہ حال ہو تو ظاہر ہے کہ ان کے لئے مہینے کی آخری تاریخوں میں خوشحالی دیکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔پھر ان میں بعضوں نے بینکوں سے قرضہ بھی اٹھایا ہو تو قرضوں کی انسٹالمنٹ بھی اداکرنا ہوتو بھلا ان کے بٹوے کے تابوت میں اکڑے نوٹ کہاں سے ہوں گے۔

 وہاں تو صحرا کی طرح نہ گھاس اگتی ہو گی نہ پھول کھلتے ہوں گے پیاس ہی پیاس بٹوے کی جیبوں میں کہیں چھپی اور کہیں کونوں کھدروں سے جھانکتی ہوگی۔سو ہمارے جیسوں کے  لئے مہینے کے شروع کی تاریخیں بھی جیسے آخری تاریخیں ہوتی ہیں۔ مگر ہمارے  بٹووں میں کڑکڑاتے نوٹ نہیں ہوتے بلکہ ہمارے بٹوے ہی کیا ہوں گے الٹا تو جیبیں بھی تار تار ہوتی ہیں۔خالی جیب گھومتے ہیں۔کیونکہ فیسوں اور بجلی کے بل کے علاوہ پٹرول اور دیگر خرچوں کی مد میں ساری رقم اٹھ جاتی ہے۔ یہ لوگ پھر سے دائیں بائیں دیکھ کر پچھلے ماہ کے قرضوں کی ادائیگی کے بعد نئے قرضے لینا شروع کردیتے ہیں۔ ان کی مالی حالت میں بھلا سدھار کیسے آئے گا۔سوچنا یہ ہے کہ کیا ہم نے یونہی رہنا ہے۔