دولہے کے سر پہ نقاب سہرے کا 

شادی بیاہوں کے فنکشنز کے لئے سردیوں کا موسم زیادہ من بھاتا موسم ہے۔پھر گرمی میں بھی شادیاں ہوتی تو ہیں۔مگر یہ ہے کہ گرمی اور پھر سخت گرمی میں تو بندہ اپنی جان سے بیزار ہوتا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ گرمی میں کھانا زیادہ کھایا بھی نہیں جاتا۔ قدرتی بات ہے کہ موسم سردہو یا موسمِ گرمامیں اے سی والا کمرہ ہو تو گرما گرم چائے بھی پینے کو جی کرتا ہے اور اندر کمرے میں بھوک بھی لگتی ہے اب شادیوں کے ڈھول ڈھمکوں میں باراتیوں اور ولیموں میں شرکت کے شوقین حضرات کی تو بن آئی ہے۔ہر ہفتہ اتوار کو اس تاک میں ہوتے ہیں کہ خاندان میں اور دوستی یاری میں کہاں کہاں ڈھول بجنے والا ہے۔جہاں نوجوانوں کو تو کھانے پینے کی پروا نہیں ہوتی وہ تو بس سوٹ بوٹ پہن کر اپنے دوست کے آگے جو سہرا باندھ کر ان کے سنگ سنگ چلا جارہاہوتاہے ناچتے گاتے ہیں اور کھانا تقسیم ہوتے وقت بجائے کھانے کے اکثر تقسیم کاروں میں شامل ہوکر انتظامیہ کی شادی کے گھر کے اندر بھی مددکرتے ہیں۔مگر ہم جیسے اشخاص تو خاص دلھا کے ساتھ گلے مل کر کیمرے کی تصویروں اور موویوں میں اپنی انٹری ریکارڈ کروا کے چپکے سے اپنے ننھے پوتے یا نواسے کی انگلی پکڑ کر کہیں دور دیوار کے ساتھ لگی میز کے پاس پہنچ کر اپنی جگہ بک کر لیتے ہیں۔بلکہ ساتھ والی دو کرسیوں پر بھی رومال وغیرہ رکھ کران کو بلاک کر دیتے ہیں۔کیونکہ ابھی ہال میں ان کے پوتے اور نواسے کے والد بھی تشریف لانے والے ہوتے ہیں۔ پھر گھر کے جتنے بھی افراد ہوں خواہ دس بارہ ہوں ایک جگہ کھائیں تو مزاآتا ہے۔مگر یہ ہے شوگر کے مریض والد او ربلڈ پریشر کے شکار سسر کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ گھر والوں سے ذرا پرے ہوکر بیٹھیں۔ اس میز پر جہاں ان کو کوئی جانتانہ ہو۔گھرکے افراد اگر دور کی میز پرسے انہیں تاک بھی رہے ہوں تو ان کو آواز دے کر شوگر میں چاول اور میٹھا کھانے سے روک نہ سکیں۔پھر بلڈ پریشر میں ان کو گوشت خوری سے احتیاط کا درس نہ دے سکیں۔ مختصر یہ ہے کہ ان مریضان کو روکنے کی ہر کوشش ناکام ہو جائے۔ سچ پوچھیں تو ہماری اپنی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہم اس میز کے پاس پہنچیں جہاں نہ اپنی فیملی والا کوئی ہو کہ روکنے ٹوکنے والا ہو اورہم کھل کھیلیں۔پھر دوست یار بھی پاس کوئی نہ ہو کہ بعض لوگوں کی ایک اور بیماری بھی کھانے کے موقع پر سامنے آتی ہے کہ وہ خوب بولنابھی شروع کردیتے ہیں۔بلکہ یہ کہیں کہ ان کی اس موقع پرایک کے اوپردوسرا سوال کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ پھر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خوشی کی تقریبات میں بعض خاندانی تعلق والے لوگ بڑی مدت کے بعد ملتے ہیں۔اس موقع پر بعض کو دوسرے کا احوال جاننے کابہت شوق ہوتا ہے۔کھانے سے پہلے پوچھ لیتے۔ مگر کھانا شروع ہوتے ہی آپ سے پوچھیں گے کہاں ہوتے ہیں آپ نظرہی نہیں آتے۔ اس سوال کے بعد وہ کھاتے رہیں گے او رآپ جواب دیتے ہوئے ہاتھ روک لیں گے ابھی آپ کاجواب پورا بھی نہیں ہوا ہوگا کہ خاندانی حوالے سے دوسرا سوال داغ دیں گے اچھا یہ بتلائیں کہ فلاں کیس کا کیا بنا سنا ہے اس کی بیوی روٹھ کر میکے بیٹھی ہوئی ہے۔ویسے میں اس معاملے میں خوش قسمت واقع ہوا ہوں۔گول میزکی اس کھانے پینے والی کانفرنس میں مجھ سے کوئی سوال ہی نہیں کرتا۔ان کو پتا ہوتا ہے کہ یہ بات نہیں کرے گا۔کیونکہ میں طبیعت کے لحاظ سے بولتا بہت ہی کم ہوں اور سنتازیادہ ہوں۔