ہمارے ہاں کی معاشرت خوشحالی کے لئے اس قدر ترس رہی ہے کہ یہاں ذہنی دباؤ کے ماحول میں اگر تفریح کے لئے جتنے پارک ہوں کم پڑتے ہیں۔ مانتا ہوں کہ پارک وغیرہ ہیں اور باغات موجود ہیں تو سہی اور بغیر ٹکٹ کے داخلہ ہے۔ٹکٹ کے ساتھ داخلہ والے پارک الگ ہیں اس طرف تو فی الحال یہ قلم نہیں جا رہا۔مگر جو پارک فری ہیں وہ بھی تو کم ہیں۔پھراگر ہیں تو چونکہ وہاں روپیہ ایک نہیں دینا پڑتا۔اس لئے وہاں کھانے پینے کی سہولیات اوردکانیں اور ٹھیلے بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ چونکہ اس قسم کے مفت داخلہ والے باغات میں عوام کے لئے لاکھوں کے جھولے نہیں ہیں۔اس لئے یہاں شہریوں کاآناجانا بھی نہیں۔ سو یہ باغات آج ویران پڑے ہیں۔کیونکہ اصل میں پارک تو انگریزوں کی ایجاد ہے۔کیونکہ لفظ پارک انگلش زبان سے لیا گیا ہے۔پارکوں کا جب دور آیاتو اس سے پہلے ہمارے ہاں باغات ہوا کرتے تھے۔جن میں سے کچھ تو اب بھی آثارِ قدیمہ کے طور پرموجود ہیں جہاں فیملی والے نہیں جاتے۔کیونکہ یہاں نشہ کرنے والے آوارہ گردنوجوان جرائم پیشہ لوگوں کا چلن بہت زیادہ ہے۔اسی طرح ہمارے ہاں عوامی اجتماعات کی تفریح کے یہ مقامات تو مدتوں سے ویران ہیں۔ یہاں آوارہ گردی کے مناظر عام دیکھنے کو ملتے ہیں۔بلکہ یہ پرانے باغات تو چور اچکوں کے چھپنے کی محبوب جگہ بن جاتی ہیں۔انگریزوں نے جو پارک بنائے ساتھ جو ہم نے خود باغات کو پارکوں کا نام دے کر آباد کرنے کی کوشش کی جو ناکام ثابت ہوئی۔ اب انگریزوں نے اپنی حکمت ِ عملی بدل لی ہے۔انھوں نے گھربیٹھے آدمی کو کمپیوٹر اور باغات کے سبز نظارے اور دیگر دیدہ زیب سر سبز مناظر پھرجانے کیا کیا لاکر ان کی مختصر ہتھیلی جتنی جگہ پر موجود کر دیا ہے۔مگر پھر بھی ہمیں پارکوں کی ضرورت ہے کہ ہم جہاں کے سبزے پرننگے پاؤں چلیں تو ڈاکٹری طور پر آنکھوں کے لئے یہ تراوت بہت فائدہ مند ہے۔۔اچھے پارکوں میں جہاں لاکھوں کے جھولے ہیں وہا ں ٹکٹ لگا ہے اور اندر کھانے پینے کی اشیاء بازار سے مہنگے داموں ملتی ہیں پھرمعیاری بھی نہیں ہوتیں۔ اگر وہاں گیٹ پر تلاشی لی جاتی ہے۔خواتین کو خواتین چیک کرتی ہیں اور مردوں کی تلاشی سیکورٹی گارڈ لیتے ہیں۔ سمجھو اندر ہر ہر قدم اٹھانے پر جیب سے روپلی نکال کردینا پڑتے ہیں۔ یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے۔مگر جن پارکوں میں سیکورٹی کا بندوبست نہیں ایک ویران پارک میں ٹکٹ لے کر اندر جانے دیتے ہیں۔ وہاں کیا پتا کون کیا اسلحہ اور کیا نشہ آور چیزیں لے کر آیا ہے۔اندر گھومنے پھرنے کے لئے کوئی بھی سیکورٹی نہیں۔ایسے میں واردات کرنے والے کو کون پکڑے گا۔سوال یہ ہے کہ جب تلاشی کا عمل نہیں تو ظاہر ہے کہ اندر کوئی بھی چیز لائی جاسکتی ہیں۔ کیونکہ گیٹ پر کوئی نگران موجود نہیں۔ ہاں گیٹ پر ٹکٹ لینے والا ضرور ہے۔گھر میں ماں باپ کی تربیت نہ ہو اور گلی محلے میں اسلحہ کا ماحول ہو تو چھری چاقو کواپنے نیفے میں رکھنا کون سا مشکل کام ہے۔حیرانی ہوتی ہے کہ گھر والے بھی نوجوان لڑکوں پر چیک نہیں رکھتے۔ چوری چھپے یا کھلے بندوں ان کی تلاشی نہیں لیتے کہ ان کی جیبوں میں کوئی نقصان دہ چیز تو موجود نہیں۔یہ تو بچوں کو سکول کالج میں داخل کروا کے بے فکر ہوجاتے ہیں۔ اگرکالج سے ان کے لڑکوں کی شکایت آئے تو کہتے کہ اساتذہ ذمہ دار ہیں۔ہم نے آپ کے مہنگے ادارے میں ان کو کیوں داخل کیا ہے۔ان کو سفید یونیفارم میں آپ کے حوالے کردیا ہے کہ ان کے دامن پر کوئی داغ نہ لگے۔جس طرح ایک شاعر نے کہا ہے کہ
خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
یعنی اگر پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھی گئی ہو تووہ دیوار اگر ثریا ستارے تک اوپر چلی جائے اس نے دھڑام سے گرنا ہوتا ہے۔