وزیر اعظم شہباز شریف نے 1800 ارب (ایک اعشاریہ آٹھ کھرب) روپے مالیت کے ”کسان پیکیج“ اعلان کیا ہے جو ملک کے موجودہ ابتر معاشی حالات میں ایک انتہائی اہم و ضروری اقدام ہے کیونکہ حالیہ تباہ کن سیلاب کی وجہ سے پاکستان کی خام قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو میں غیرمعمولی کمی آئی ہے۔ سیلاب کا بے رحم پانی اپنے ساتھ فصلیں اُور خوراک کا ذخیرے بھی بہا لے گیا ہے جو کسانوں کی کل جمع پونجی تھی جبکہ کھیتی باڑی کے لئے استعمال ہونے والا وسیع رقبہ تاحال زیرآب ہے۔ عالمی بینک جیسی بین الاقوامی ترقیاتی تنظیمیں پہلے ہی حکومت پر زور دے رہی تھیں کہ وہ ملک کے تباہ حال فارم سیکٹر (زرعی شعبے) کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دے۔ قابل ذکر ہے کہ زیریں سندھ وادی کے کچھ حصوں سے سیلابی پانی کا ابھی تک کم ہونا باقی ہے اور سیلاب زدہ کئی علاقوں میں کھیتی باڑی پانی میں ڈوبی ہوئی ہے۔
اس لئے خدشہ ہے کہ آئندہ گندم کی فصل میں تاخیر اور کمی ہو گی۔ اِس صورتحال میں غذائی بحران سے بچنے کے لئے اشیائے خوردونوش کی درآمد ضروری ہو گئی ہے اور عالمی منڈی میں غذائی اجناس کی قیمتیں پہلے ہی بلند ہیں جس کی وجہ روس یوکرین جنگ ہے اور اِس جاری جنگ کی وجہ سے بین الاقوامی منڈی میں توانائی اور اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ خراب معاشی حالات تمام بڑی معیشتوں کو متاثر کر رہے ہیں اور اِن سے مہنگائی کم کرنے میں بھی خاطرخواہ مدد نہیں مل رہی۔ اگر پاکستان میں مہنگائی کی بات کی جائے تو یہ گزشتہ ماہ (اکتوبر دوہزاربائیس) میں مسلسل بڑھتی رہی۔ خاص طور پر اشیائے خوردونوش کی ’افراط زر‘ زیادہ ہے اور یہی آمدنی کے لحاظ سے عوام کے اُن طبقات کو متاثر کر رہی ہے‘ جن کے وسائل کم اور غیرمستقل ہیں۔ مجموعی طور پر مہنگائی میں چھتیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ توانائی اور خوراک کی قیمتیں مہنگائی کے دو بڑے محرکات ہیں۔ اگر کسان پیکج کے نتیجے میں مقامی طور پر خوراک کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے اور اس وجہ سے قیمتیں کم ہوتی ہیں‘ تو اس کے فوائد لامحالہ عام پاکستانیوں کو حاصل ہوں گے۔ یہ بات بھی حوصلہ افزا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی ٹیم نے ایندھن‘ بیجوں اور کھادوں کے ساتھ ساتھ ٹریکٹر جیسے زرعی آلات پر سبسڈی دینے کا بھی اعلان کیا ہے جو سمجھداری کا مظاہرہ ہے۔ سیلاب سے تباہ حال کسانوں کے لئے کسان پیکج درست وقت میں کیا گیا صحیح فیصلہ ہے لیکن اندیشہ یہ ہے کہ مراعات یافتہ طبقات ماضی کی طرح اِس مرتبہ بھی ’کسان پیکج‘ سے زیادہ فائدہ اُٹھائیں گے۔ بڑے زمیندار عموماً اِس قسم کے مواقعوں کے منتظر رہتے ہیں۔
دیکھنا یہ ہوگا کہ کسان پیکج کے نام پر جو سبسڈی دی جائے گی اُس کا کتنے فیصد ’چھوٹے کاشتکاروں تک پہنچے گا۔ فارم سیکٹر میں ’ایس ایم ایز‘ کو شامل کرنا‘ جسے کسان پیکج میں قابل ذکر اقدام کے طور پر پیش کیا گیا ہے‘ بالخصوص جانچ کا متقاضی ہے۔ یہ فارم کارپوریٹائزیشن جیسا متنازعہ مسئلہ ہو سکتا ہے۔ کیا کسان پیکج سے سیلاب متاثرین کو واقعی فائدہ پہنچے گا؟ یا ’غیر ملکی ادارے (کارپوریشنز) کہ جنہوں نے چھوٹے کاروبار (ایس ایم ایز) کا روپ دھار رکھا ہے‘ ہماری زرعی معیشت پر حاوی ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں گندم کی بوائی کا سیزن جاری ہے اور حکومت نے ابھی تک غذائی اجناس کی امدادی قیمت کے حوالے سے کسانوں کے شکوک و شبہات دور کرنے ہیں۔ فصل کی بوائی سے پہلے اگر کاشتکاروں کو اپنی محنت کا اچھی صلہ ملنے کی اُمید ہو تو زیادہ اور پیداوار بہتر حاصل ہو گی۔
اِس لئے تمام بڑی فصلوں کے لئے امدادی قیمتوں کا اعلان کرنے میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ مختصراً کسان پیکج خوشنما ہے لیکن اس کی اصل اہمیت اور افادیت کا اندازہ اس وقت ہوگا جب ہم یہ دیکھیں گے کہ اس سے چھوٹے اور حقیقی کاشتکاروں کو کس قدر فائدہ ہوتا ہے۔پاکستان کو جامع اور طویل المدتی زرعی پالیسی کی ضرورت ہے۔ کاشت کی فی ایکڑ پیداوار بڑھانے پر توجہ دی جانی چاہئے اور اِس پیداواری ہدف کو ’کم سے کم‘ ہمسایہ ممالک چین اور بھارت کی سطح پر لانے کی ضرورت ہے جس کے لئے اصلاحات اور سائنسی طریقوں سے زراعت کے فروغ پر وسائل مرکوز ہونے چاہیئں۔ کسانوں کو اُمید ہے کہ حکومت موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والا ”بہتر بیج“ اور سستے داموں کھادوں کی دستیابی یقینی بنائے گی۔ کسان پیکج کے ذریعے پیداواری ضروریات کی فراہمی پر توجہ مرکوز ہونی چاہئے اور صرف یہی ایک طریقہ (حربہ) زرعی معیشت و معاشرت کی بحالی کا باعث ہو سکتا ہے۔