گھر کے ماحول کو سازگار رکھنے کے لئے بہت قربانی دینا پڑتی ہے۔ہمارے ہاں ایسا ہوتا کہ عام طور پر ہم جس چھوٹے بچے سے بہت پیار کرتے ہیں۔جو ابھی باتیں سیکھنے کے مراحل میں ہوتاہے۔وہ مشکل سے دو چار جملے بول لیتا ہے۔وہ جب بڑوں کی دی ہوئی کوئی گالی دہراتا ہے تو ہم پیار و محبت سے دوڑ کر اس کو دونوں ہاتھوں سے اٹھا لیتے ہیں گلے سے چمٹاتے ہیں چومتے ہیں اور پچک پچک کی آوازوں سے اس کے ننھے سے چہرے پر بوسوں کی مہریں لگا دیتے ہیں۔صدقے قربان ہو تے ہیں کہ ہم کہاں او ریہ دن کہاں جو ہمارے بچے نے بولنا شروع کردیا ہے۔اصل میں بچہ جو بھی ہو جب بولنا شروع کرتا ہے تو وہ بڑوں کی نقل کرتا ہے۔اس سے پہلے جب وہ نہیں بول سکتا تھا تو بھی وہ بڑوں کی حرکات و سکنات اور روزمرہ کی زندگی میں ان کے ہاتھ پاؤں ہلانے کو دہراتا ہے۔جس پر ہم لوگ پھولے نہیں سماتے۔
یہ قدرتی ہے کہ وہ جب بولے گا بھی تو ہماری نقل کرے گا۔ خوشی تو ہے اس میں کیا شک ہے۔ مگر سوچنا یہ ہے کہ اس نے بولنے کی ابتدا گالی ہی سے کیوں کی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ گھرمیں وہ گالی دہرائی جاتی ہے۔ماحول میں جو کچھ ہوگا بچے نے وہی کچھ سیکھنا ہے خواہ نیکی کا چلن ہو یا برائی کی چال ڈھال ہو سب کچھ اسی ماحول کا حصہ ہوتا ہے۔سو جتنے چھوٹے ہیں سب نے وہی کچھ کرناہوتا ہے جو ان کے بڑے اس گھرمیں انجام دیتے ہیں۔بلکہ اگر گھر میں طوطا ہے تو وہ بھی بنا سوچے سمجھے وہی گالی دہراتا ہے جو اس گھر میں زیادہ دی جاتی ہے۔گھرمیں اگر دروازے کی گھنٹی بجتی ہے یا کنجی کھڑکتی ہے تو اوپر عروسی سے بچے یا خواتین آواز دیتی ہیں کون ہے۔جن گھروں میں بچے زیادہ ہوتے ہیں وہاں ان کا گھرکے مین دروازے سے اندر آنا جانا زیادہ ہوتا ہے۔
گھر کے اندر سے ہر دو منٹ کے بعد کون ہے کون ہے کی صدائیں ابھرتی رہتی ہیں۔پھر اس آواز کے بعد دروازہ کے ہوڑے کی رسی کھینچی جاتی ہے۔اس موقع پراوپر روشن دان کے پاس کھڑکی کے پردوں کے پائپ پر بیٹھا طوطا بھی جب دروازہ کھڑکھڑائے تو کون ہے کی صدا بلند کرتا ہے۔میرا مطلب ماحول سے ہے۔جہاں بچے تو کیاطوطے بھی وہی باتیں دہراتے ہیں جو گھرمیں کی جاتی ہے۔ماں اگر بچے کو برا بھلا کہے تووہی الفاظ طوطے کو بھی یاد ہو جاتے ہیں۔وہ شعر یاد آتا ہے ”دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں۔جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں“۔بچے تو چھوڑ اس بڑے نے بھی تو کہیں سے وہ گالیاں سیکھ رکھی ہوں گی۔ جو معلوم نہیں کون سا ماحول تھا۔مگر اب وہ اس نئی فضا کو وہی گالیا ں لوٹا رہاہے۔یہ اگر وہ ماحول نہیں تو کیا ہوا یہ اسی بڑے ماحول کا حصہ ہے۔
اسی طرح یہی بچہ کل کو یہی گالیاں کسی اور ماحول میں ادا کرے گا۔ گھرمیں بچوں کی تربیت کے لئے بندہ اپنے اوپر جبرکر کے غصے کے وقت گالیاں نہیں دیتا تاکہ گھرمیں جو معصوم بچے ہیں یا بڑے بچے بھی ہوں تو گالیاں نہ سیکھ لیں۔مائیں سچی تو نہیں مگر عادت میں شامل بعض بددعائیں جو ان کا تکیہ کلام ہوتا ہے بچوں کو دیتی ہیں۔ وہ الفاظ گھر کی بچیاں سیکھ لیتی ہیں۔پھر وہ بھی آگے کسی موقع پر اپنے چھوٹے بھائیوں کو کسی غلطی پر دیتی ہیں۔صرف گالیوں ہی تک تو بات محدود نہیں۔بچے توہر بات کو خواہ اچھی ہو یا بری اپنا لیتے ہیں۔اب گھرمیں صرف گالیاں تو نہیں ہوتیں۔ گھروں میں باپ بڑا بھائی وغیرہ بڑے تپاک سے سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔ان کے ذہن کے دور کسی کونے میں بھی یہ بات نہیں ہوتی کہ میں کوئی غلط کام کر رہاہوں۔
اول تو اس کو سمجھانا ہے کہ یہ سگریٹ کی عادت اگر آپ نے اپنا رکھی ہے تو یہ عادت بچوں میں بھی از خود آ جائے گی۔ اس لئے ضروری ہے کہ بچوں کی تربیت کے حوالے سے اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ بچوں کو وہی کچھ سکھایا جائے جو مستقبل میں ان کیلئے مفید ہو۔اگر ہر آدمی اس کام کو اپنا فرض جان کر ادا کرے تو کیااچھا ہو۔ جو بہتر معاشرے ہیں جہاں اس قسم کی غلط حرکات نہیں کی جاتیں وہاں کے بچوں کو بھی اگر آپ دیکھیں تو بہت تہذیب یافتہ ہوتے ہیں۔کیونکہ وہاں کے بڑے تہذیب و شائستگی کے میدان میں بہت قربانیاں دے کر اوپر آئے ہوتے ہیں۔سو ہم نے اپنے گھرسے ابتدا کرنا ہے۔تب کہیں باہر جا کر کسی کو سمجھانا ہوگا۔جب گھرمیں ہماری کوشش ناکام ہے تو باہر جا کر کسی کوسگریٹ پینے سے منع کرنا ایک بے فائدہ کوشش ہوگی۔