دو سائنسدانوں کی صحبت میں چند گھنٹے گزار نے کے بعد شہر کی کسی بڑی شاہراہ پر آجا ئیں تو آپ کو پورا شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو تا ہوا نظر آتا ہے سائنسدان کہتے ہیں پا نی کے جستی پا ئپوں کی عمر 50سال ہے اس کے بعد پا ئپوں کو زنگ لگ جاتا ہے اور یہ زنگ پا نی میں زہر ملا دیتا ہے۔ پا نی زہر آلود ہو تو 75اقسام کی بیما ریاں پھیلتی ہیں، دل‘ پھیپھڑے اور جگر کی بیماریاں ان میں سب سے زیا دہ ہو تی ہیں۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ تمہار ے شہر میں زیر زمین پا نی کی سطح ہر سال 20فٹ نیچے گر تی ہے جس جگہ 1990میں 50فٹ پر پانی ملتا تھا وہاں 2022میں 310فٹ پر بھی پانی نہیں ملتا۔سائنسدان کہتے ہیں مستقبل میں پشاور کی 3بڑی خصو صیات دم توڑ دینگی‘یہ پھولوں کا شہر نہیں رہے گا‘یہ فصلوں کا شہر نہیں رہے گا‘یہ با غوں کا شہر نہیں رہے گا یہ تینوں خصوصیات کتا بوں میں مقید رہیں گی۔بظا ہر ایسا لگتا ہے کہ سائنسدان ہمیں ڈرا رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم آنکھیں بند کر کے گہر ی کھا ئی
کی طرف جا رہے ہیں اور سائنسدان ہمیں بتارہے ہیں کہ آگے کھا ئی ہے اگر ہم نے آنکھیں کھو لیں تو کھا ئی ہمیں بھی نظر آئیگی۔سائنسدان تین خطر نا ک رجحا نات کی طرف اشارہ کر تے ہیں، پہلا خطر نا ک رجحا ن یہ ہے کہ ہمیں سر یا اور سیمنٹ سے محبت ہو گئی ہے۔بڑی نہروں سے لیکر چھوٹی نہروں تک ہر جگہ بہتے پا نی کو ہم سر یا اور سیمنٹ میں مقید کر تے ہیں۔ پا نی زمین کے مسا موں میں دا خل نہیں ہو تا۔ سریا اور سیمنٹ آنے سے پہلے پا نی زمین کے اندر جا کر رس رس کر پھیل جا تا تھا گھا س پھوس، نبا تات اور پودوں کو خوراک مہیا کر تا تھا، وہ سارا قدرتی اور فطر ی
سلسلہ رک گیا ہے۔زمین پا نی کو تر س رہی ہے دوسرا خطر نا ک رجحا ن یہ ہے کہ ہمیں کیڑے ما ر زہروں سے پیار ہو گیا ہے۔ ہم کیڑے مکو ڑوں کو مار نے کے لئے بیج میں بھی زہر ملا تے ہیں، پا نی میں بھی زہر ملا تے ہیں۔ ہرے پودوں، فصلوں اور سبزیوں پر بھی زہر کا پا نی چھڑ کتے ہیں۔ اس چھڑ کاؤ نے فطرت کا وہ نظا م بگاڑ دیا ہے جس کی مدد سے مفید کیڑے مکوڑے ہمارے لئے ہو ا‘ پانی اور مٹی میں توازن پیدا کر کے ہمارے انا ج کی حفاظت کر تے تھے اور ماحول کو سہا را دیتے تھے۔ تیسرے نمبر پر سائنسدان اس خطر نا ک رجحا ن کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ لہلہاتے کھیتوں اور خوبصورت باغوں کی جگہ پکے مکا نا ت لے لیتے ہیں۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ فصل اُگا نے اور خوراک پیدا کر نے کی گنجا ئش روز بروز کم ہو تی جا رہی ہے دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ سیمنٹ اور سر یا زمین کے اوپر پھیل جا نے کی وجہ سے زمین کو ری چار ج کرنیوالا پا نی زمین کے اندر نہیں جا تا اور نباتات کی زند گی معدو میت کے خطرے سے دو چار ہو جاتی ہے‘ مشرقی پنجا ب کے زمینداروں نے 1935میں اس خطر ے کو بھا نپ لیا تھا اسمبلی سے قانون بنوا کر نا فذ کیا گیا تھا کہ زر عی زمین کو غیر زر عی مقا صد کے لئے استعمال کرنا جر م تصور کیا جا ئیگا اور جر م قا بل دست اندازی پو لیس ہو گا چنانچہ زر عی زمین بچا لی گئی اب تک مشرقی پنجاب میں اس قا نون پر عملدر آمد ہو تا ہے اس قا نون کی وجہ سے دور دراز سے آنے والے سیٹھوں کو زمین فروخت کر نا جر م بن گیا۔ آج پشاور ہی نہیں، مر دان، چارسدہ، نو شہرہ، بنوں، ڈی آئی خا ن، مینگورہ، ہر ی پور، ما نسہرہ اور چترال بھی سیمنٹ اور سر یا کے نر غے میں آگئے ہیں زیر زمین پا نی نا پید ہو رہا ہے اور شہروں کے لو گ صاف ستھرے خوراک، صحت مند پھلوں اور سبزیوں کوترس رہے ہیں۔شہروں کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لئے با قاعدہ منصو بہ بند ی، قا نون سازی اور مر بوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔