امریکہ اپنی داخلی قومی سلامتی سے متعلق حکمت عملی میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں اور ترامیم کرتا ہے جس کی وجہ سے اُس کے سلامتی مفادات ہیں اور اِنہیں لاحق خطرات تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے دوست اور دشمن مستقل نہیں اور دنیا کا کوئی بھی ملک اِس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتا یا تو یہ بات پورے وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ امریکہ کا دائمی دوست ہے۔ امریکہ کی نئی سلامتی حکمت عملی میں پاکستان کو خاطرخواہ اہمیت نہیں ملی اور یہی وجہ ہے کہ نائن الیون کے بعد سے مرتب ہونے والی عالمی تاریخ انتہائی متنازعہ اور خودغرضی پر مبنی ہے۔ جارج بش انتظامیہ نے نیشنل سیکورٹی سٹرٹیجی اِن خطوط پر وضع کی تھی کہ امریکہ کے خلاف براہ راست یا بالواسطہ جارحیت روکنے کے لئے امریکہ کو ہر طرح کی طاقت استعمال کرنے کا حق ہے۔ اُس حکمت عملی کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ کوئی ملک اگر امریکہ کے حکم پر سرتسلیم خم نہیں کرتا تو اِس کا مطلب وہ امریکہ کے دشمنوں کی صف میں کھڑا ہو گیا ہے۔ دنیا نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگوں کے ساتھ عراق پر حملے کی حمایت کی‘ جس کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی داستان پیش کی گئی اور ایک ایسا خیال پیش کیا گیا جو بالآخر غلط ثابت ہوا۔ یوں دنیا میں یک طرفہ ازم بھی امریکہ کی جانب سے معمول کے مطابق متعارف کرایا جاتا رہا ہے۔صدر براک اوباما کی قومی سلامتی کی حکمت عملی دوہزارپندرہ میں جاری کی گئی جس میں کہا گیا کہ امریکہ ایک مستحکم‘ پرامن اور خوشحال چین کے عروج کا خیر مقدم کرتا ہے لیکن ساتھ ہی اِسے امریکہ کے لئے بطور عالمی طاقت خطرے کی گھنٹی بھی قرار دیا گیا۔ اُنہوں نے کہا کہ چین کی دفاعی صلاحیت کو جس انداز میں جدید بنایا جا رہا ہے اُس سے امریکہ کو خبردار (چوکنا) رہنا چاہئے۔ تب اِس بات کا اظہار بھی کیا، گیا کہ امریکہ عالمی اثر و رسوخ کے دیگر اہم مراکز بشمول چین‘ بھارت اور روس کے ساتھ گہری اور زیادہ مؤثر شراکت داری قائم کرنے کا خواہاں ہے۔ امریکہ نے یورپ سے ایشیا تک اپنے اتحاد کی تجدید کی اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کے امکانات کو وسیع کرتا چلا گیا۔صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جنوبی ایشیا سے متعلق حکمت عملی میں بھی بھارت کو پاکستان پر ترجیح دی گئی۔ امریکہ کے لئے جنوبی ایشیا کی حکمت عملی کا سب سے اہم حصہ بھارت کے ساتھ اِس کی سٹریٹجک شراکت داری ہے‘ جسے فروغ دیا جا رہا ہے اور امریکہ اپنے مفادات کی دوڑ میں پاکستان جیسے صف اوّل میں شمار ہونے والے ممالک کے مفادات کو قربان کر رہا ہے۔ اب امریکہ کو افغانستان میں اپنی ناکامیوں کے لئے بھی پاکستان دکھائی دے رہا ہے جبکہ اِسی پاکستان نے امریکہ کو افغانستان سے باعزت و سلامتی کے ساتھ نکلنے کا موقع فراہم کیا۔ یو ایس انڈو پیسیفک سٹریٹجی نے انڈو پیسیفک ریاستوں کو ”مشترکہ تاریخ‘ ثقافت‘ تجارت اور اقدار کے اٹوٹ بندھن کے ذریعے جڑے پڑوسیوں کے طور پر“ دیکھا۔ اس نے آزاد ہند بحرالکاہل کے لئے مستقل عزم کا اظہار کیا اور چین کے بارے میں مشاہدات کا نچوڑ یہ ہے کہ یہ ”بین ریاستی تزویراتی مقابلہ (ہے)“ جو آزاد اور جابر دنیا کے درمیان جغرافیائی سیاسی رقابت ہے اور بالخصوص چین کی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں چین کا خطے پر زیادہ کنٹرول قائم کرنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔بارہ اکتوبر دوہزاربائیس کے روز امریکی صدر جو بائیڈن نے قومی سلامتی کی حکمت عملی جاری کرتے ہوئے جس ’عالمی مقابلے‘ کو زیادہ سخت قرار دیا جو روس نہیں بلکہ چین ہے اور امریکہ چین کی پائیدار مسابقتی برتری اور ترقی کو روکنے کے لئیجنوبی ایشیا میں ہی کسی ملک کا استعمال کرنا چاہتا ہے۔ ایک وقت تھا جب امریکہ کے لئے روس واحد خطرہ تھا اور وہ روس کو عالمی امن اور استحکام کے لئے فوری اور مستقل خطرہ قرار دیتا تھا لیکن اب ایسا نہیں رہا کیونکہ یوکرین کے ساتھ جنگ میں روس کو الجھا کر امریکہ نے اپنے بہت سارے اہداف حاصل کر لئے ہیں اور اب اُس کی نظریں چین پر ہیں جس کے لئے جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے ملک کا کندھا اور اس کی سرزمین و وسائل استعمال کرنے کی کوشش کی جائے گی۔